آج علامہ ضمیر نقوی کی اس دنیا فانی سے رخصت کی خبر سنی تو جہاں یہ خبر سن کر دلی افسوس ہوا وہیں پر کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر ان سے ہونے والے سلوک کا خیال آیا۔
علامہ ضمیر نقوی 76 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ معزز قارئین یہ ہماری کیسی ذہنیت وجود میں آ چکی ہے کہ ہم میں سے کوئی اک کسی کا مذاق اڑاتا ہے تو باقی کی ساری عوام جاہلوں کی طرح لائک اور شیر کرنے میں مگن ھو جاتی ہے۔ کہیں ہم اگلے پر اپنےعلم کی دھواں بناتے نظر آتے ہیں اور کہیں اگلے بندے کی جہالت کی سند بانٹتے صرف اس لئے کے ہم ان کے خیالات سے متفق نہیں ہیں۔
اب علامہ ضمیر نقوی کی مثال لے لی جائے، علامہ نا صرف الکلام میگزین کے ایڈیٹر، انیس اکیڈمی کی سرپرست تھے بلکہ کراچی یونیورسٹی سے PhD تھے۔ وہ نا صرف مذہبی عالم تھے بلکہ وہ سائنس، فلسفہ، ادب اور صخافت کا علم بھی رکھتے تھے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔
ان کی انٹرنیٹ پر شہرت کی خاص وجہ ان کے انٹرنیٹ پر سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع ہونے والے چند کلپ بھی تھے۔ انٹرنیٹ کی دنیا پر بیٹھے کچھ فارغ قسم کے ٹرولز بھی ہیں جن کا کام کسی دوسرے کے خرچے پر جگت بازی کر کے اپنی 15 سیکنڈ کی شہرت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ کسی کا مزاق اڑانا اپنی مستی کے لئیے کہاں کی عقل ہے؟ پھر باوجود اس کے علامہ ضمیر نقوی نے متعدد بار منع بھی کیا کے ان کا مذاق نہ اڑایا جاے مگر محال ہے کے کسی کو اثر ہوا ہو۔
اسی طرح کچھ عرصہ پہلے انور مقصود اور زبیدہ آپا بھی سوشل میڈیا کی اس گری ہوئی حرکت کا شکار رہ چکے ہیں اور باقائدہ یہ التجا کر چکے ہیں کہ انہیں سوشل میڈیا پر رولنگ کا نشانہ نا بنایا جائے۔
لیکن سوچنے اور دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ علامہ ضمیر نقوی کچھ عرصہ پہلے اپنے اک انٹرویو میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ ان مذاق اڑانے والوں کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ اور اب تو معافی مانگنے کا موقعہ بھی نہ رہا۔ یہ مسلہ تو اب حقوق العباد کا رہا اللہ کا بندہ قیامت کے دن خود ہی معاف کرے تو کرے۔
میری دعا ہے اللہ پاک جانے والے کے درجات بلندکریں، اور ہماری عقل کا معیار۔ آمین