متعلقہ مضامین

مجموعہ مضامین

پاکستانی تاجر نے چینی بسنس مین سے بڑا فراڈ

کراچی: وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے کوآپریٹو...

تَخیُل کے لفظی معنی اور اسکا مطلب

اسم، مذکر، واحدخیال کرنا، خیال میں لانا، وہ خیال...

سربراہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی)  مولانا فضل الرحمان کا اہم بیان

سربراہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی)  مولانا فضل...

عمران خان کے بارے بڑی خوشخبری اچھی خبروں کا آغاز

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس ٹو میں...

24 نومبر کا احتجاج ملتوی؟

اسلام آباد: 24 نومبر کے احتجاج کو لے کر...

حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے ہمارا فیس بک پیج لائک کریں۔

293,470پرستارلائک

آگے دیں۔ آپ کو بھی تو دیا گیا ہے۔۔۔

دوسروں کی مدد کرنا ، یہ ایک ایسا  جذبہ ہے جس بچپن سے ہی انسان کی فطرت میں شامل  کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات انسان جوانی میں آ کے کنجوسی اور دیگر عوامل کی وجہ سے مدد کرنے سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اور کچھ لوگ کنجوس بھی نہیں ہوتے لیکن وہ سوچتے ہیں کہ اُن کے پاس قارون جیسی دولت ہو گی تو وہ لوگوں کی مدد کریں گے۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اس آرٹیکل میں آپ لوگ دیکھیں گے کہ کسی کی مدد کرنے کے لئے یہ لازمی نہیں کہ آپ کے پاس کروڑوں کی دولت ہو، بلکہ یہ کام چند روپوں میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور مدد کرنے کے بعد آپ لوگوں کو جو  دنیا میں  سکون ملے گا اس کا تو حساب لگانا ہی مشکل ہے۔

میڈیکل سٹور پہ آنکھوں دیکھا ایک واقعہ:

یہ واقعہ ایک بندے کا ہے جو بتاتا ہے کہ  سیلزمین سے دوائیں نکلوانے کے بعد، پیسے دینے کے لیے جب کاؤنٹر پر پہنچا تو مجھ سے پہلے قطار میں دو لوگ کھڑے تھے۔

 سب سے آگے ایک بوڑھی عورت، اس کے پیچھے ایک نوجوان لڑکا تھا۔

 میری دوائیاں کاؤنٹر پر سامنے  ہی رکھی تھیں اور ان کے نیچے رسید دبی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی دو اور ڈھیر بھی تھے جو مجھ سے پہلے کھڑے لوگوں کے تھے۔

مجھے جلدی تھی کیونکہ گھر والے گاڑی میں بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے۔۔۔ مگر دیر ہورہی تھی کیونکہ بوڑھی عورت کاؤنٹر پر چپ چاپ کھڑی تھی۔

میں نے دیکھا، وہ بار بار  اپنے دبلے پتلے ، کانپتے ہاتھوں سے سر پر چادر جماتی اور جسم پر لپیٹتی تھی۔ اس کی چادر کسی زمانے میں سفید ہوگی مگر اب گِھس کر ہلکی سرمئی سی ہوچکی تھی۔ پائوں میں عام سی  ہوائی  چپل اور ہاتھ میں سبزی کی تھیلی تھی۔ میڈیکل اسٹور والے نے خودکار انداز میں عورت کی دوائیوں کا بل  اٹھایا اور بولا۔

980 روپے۔ اس نے عورت کی طرف دیکھے بغیرپیسوں کے لیے ہاتھ آگے بڑھادیا۔

عورت نے چادر میں سے ہاتھ باہر نکالا اور  مُٹھی میں پکڑے  مڑے تڑے ، 50 روپے کے دو نوٹ کاؤنٹر پر رکھ دئیے ۔ پھر اپنا  سَر جھکالیا۔

بقایا ؟۔ دکاندار کی آواز  اچانک دھیمی ہوگئی،بالکل سرگوشی کے برابر۔اس نے عورت  کی طرف دیکھا ۔ بوڑھی عورت  اپنا سَر جھکائے اپنی چادر  ٹھیک کرتی رہی۔

شاید دو سیکنڈز کی خاموشی رہی ہوگی۔ ان دو سیکنڈز میں ہم   سب کو اندازہ ہوگیا کہ عورت  کے پاس دوائیوں کے پیسے یا تو نہیں ہیں یا کم ہیں اور وہ کشمکش میں ہے کہ کیا کرے۔ مگر دکاندار نے کوئی  لمحہ ضائع کیے  بغیر، تیزی سے  اس کی دوائیوں کا ڈھیر تھیلی میں  ڈال کرآگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

اچھا اماں جی۔ شکریہ۔

بوڑھی عورت کا سر بدستور نیچے تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے تھیلی پکڑی اور کسی کی طرف دیکھے بغیر دکان سے باہر چلی گئی۔  ہم سب اسے جاتا دیکھتے رہے۔میں حیران تھا کہ 980 روپے کی دوائیں اس دکاندار نے صرف 100روپے میں دے دی تھیں۔ اس کی فیاضی  اور سخاوت سےمیں بہت زیادہ  متاثر ہوا تھا۔

جونہی وہ باہر گئی، دکاندار پہلے   ہمیں دیکھ کر مسکرایا۔ پھر کاؤنٹر پر رکھی پلاسٹک کی ایک  شفاف  بوتل اٹھالی جس پر لکھا ‘ڈونیشنز فار میڈیسنز  یعنی (دوائیوں کے لیے عطیات)۔

 اس بوتل میں  بہت سارے نوٹ نظر آرہے تھے۔ زیادہ تر دس اور پچاس کے نوٹ تھے۔ دکاندار نے تیزی سے بوتل کھولی  اوراس میں سے  مُٹھی بھر کر پیسے نکال لیے۔ پھر جتنے پیسے ہاتھ میں آئے انہیں کائونٹر پر رکھ کر  گننے لگا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کیا کام شروع ہوگیا ہے مگر دیکھتا رہا۔

دکاندار نے جلدی جلدی سارے نوٹ گنِے تو ساڑھے تین سو روپے تھے۔ اس نے پھر بوتل میں ہاتھ ڈالا اور باقی پیسے بھی نکال لیے۔

 اب بوتل  بالکل خالی ہوچکی تھی۔ اس نے بوتل کا ڈھکن بند کیا اور دوبارہ پیسے گننے لگا۔ اس بار کُل ملا کر ساڑھے پانچ سو روپے بن گئے تھے۔

اس نے بوڑھی عورت کے دیے ہوئے، پچاس کے دونوں نوٹ، بوتل سے نکلنے والے پیسوں میں ملائے اور پھر  سارے پیسے اٹھا کر اپنی دراز میں ڈال دئیے ۔ پھر مجھ سے آگے کھڑے گاہک کی طرف متوجہ ہوگیا۔جی بھائی۔

نوجوان  نے،جو خاموشی سے یہ سب دیکھ رہا تھا،    ایک ہزار کا نوٹ آگے بڑھادیا۔ دکاندار نے اس کا بل دیکھ کر  نوٹ دراز میں ڈال دیا اور گِن کر تین سو تیس روپے واپس کردیے۔

ایک لمحہ رکے بغیر،  نوجوان نے  بقایا ملنے والے نوٹ پکڑ کر انہیں تہہ کیا۔ پھر بوتل کا ڈکھن کھولاا اور  سارے نوٹ اس میں  ڈال کر ڈھکن بند کردیا۔اب  خالی ہونے والی   بوتل  میں  پھر سے، سَو کے تین اور دس کے تین نوٹ نظر آنے لگے تھے۔ نوجوان نے اپنی تھیلی اٹھائی ۔زور سے   سلام کیا اور دکان سے چلاگیا۔

بمشکل ایک منٹ کی اس کارروائ  نے میرے رونگھٹے کھڑے کردئیے تھے۔ میرے سامنے، چپ چاپ، ایک عجیب  کہانی مکمل ہوگئی تھی اور اس کہانی کے کردار، اپنا اپنا  حصہ ملا کر، زندگی کے اسکرین سے غائب ہوگئے تھے۔ صرف میں وہاں رہ گیا تھا جو  اس کہانی کا تماشائی تھا۔

بھائی یہ کیا کیا ہے آپ نے؟’۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں پوچھ بیٹھا۔یہ کیا کام چل رہا ہے؟

اوہ کچھ نہیں ہے سر۔ دکاندار نے بے پروائی سے کہا۔ادھر یہ سب چلتا رہتا ہے

مگر یہ کیا ہے؟۔ آپ نے تو عورت سے پیسے کم لیے ہیں؟۔ پورے آٹھ سو روپے کم۔اور بوتل میں سے بھی کم پیسے نکلے ہیں۔ تو کیا یہ اکثر ہوتا ہے؟۔

میرے اندر کا پرانا صحافی بے چین تھا جاننے کے لیے کہ آخر واقعہ کیا ہے۔

کبھی ہو جاتا   ہے سر۔ کبھی نہیں۔ آپ کو تو پتا ہے کیا حالات چل رہے ہیں۔ دکاندار   نے آگے جھک کر سرگوشی میں کہا۔دوائیں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں۔ سفید پوش لوگ روز آتے ہیں۔ کسی کے پاس پیسے کم ہوتے ہیں۔ کسی کے پاس بالکل نہیں ہوتے۔ تو ہم کسی کو منع نہیں کرتے۔ اللہ نے جتنی توفیق دی ہے، اتنی مدد کردیتے ہیں۔” باقی اللہ ہماری مدد کردیتا ہے”۔

اس نے بوتل کی طرف اشارا کیا۔

یہ بوتل کتنے دن میں بھر جاتی ہے؟۔ میں نے پوچھا۔

دن کدھرسر! وہ ہنسا۔یہ تو ابھی چند گھنٹے میں بھرجائے گی۔

واقعی۔ میں حیران رہ گیا۔پھر یہ کتنی دیر میں خالی ہوتی ہے؟۔

یہ خالی نہیں ہوتی سر۔ اگر خالی ہوجائے تو دو سے تین گھنٹے میں پھر بھر جاتی ہے۔ دن میں تین چار بار خالی ہوکر بھرتی ہے۔ شکر الحمدللہ’۔ دکاندار اوپر دیکھ کر سینے پر ہاتھ رکھا اور بولا۔

اتنے لوگ آجاتے ہیں پیسے دینے والے بھی اور لینے والے بھی۔ میں نیکی کی رفتار سے بے یقینی میں تھا۔

ابھی آپ نے تو خود دیکھا ہے سر۔ وہ ہنسا۔بوتل خالی ہوگئی تھی۔ مگر  کتنی دیر خالی رہی۔ شاید دس سیکنڈ۔ابھی دیکھیں۔ اس نے بوتل میں پیسوں کی طرف اشارہ کیا۔

‘پیسے دینے والے کون ہیں؟۔

ادھر کے ہی لوگ ہیں سر۔ جو دوائیں لینے آتے ہیں، وہی اس میں پیسے ڈالتے ہیں۔

اور جو دوائیں لیتے ہیں ان پیسوں سے، وہ کون لوگ ہیں؟۔ میں نے پوچھا۔

وہ بھی ادھر کے ہی لوگ ہیں۔ زیادہ تر بوڑھے، بیوائیں اور کم تنخواہ والے لڑکے ہیں جن کو اپنے والدین کے لیے دوائیں چاہیے ہوتی ہیں۔ اس نے بتایا۔

لڑکے؟۔ میرا دل لرز گیا۔لڑکے کیوں لیتے ہیں چندے کی دوائیں؟۔

سر اتنی  بے روزگاری ہے۔ بہت سے لڑکوں کو تو میں جانتا ہوں ان کی نوکری کورونا کی وجہ سے ختم ہوگئی ہے۔ اس نے دکھی لہجے میں کہا۔اب گھر میں ماں باپ ہیں۔ بچے ہیں۔ دوائیں تو سب کو چاہئیں۔ تو لڑکے بھی اب مجبور ہوگئے ہیں اس  بوتل میں سے  دوا لینے کے لیے، کیا کریں۔ کئی بار تو ہم نے روتے ہوئے دیکھا ہے اس میں  سےلڑکوں کو پیسےنکالتےہوئے۔ یقین کریں ہم خود روتے ہیں’۔ مجھے اس کی آنکھوں میں نمی تیرتی نظر آنے لگی۔

اچھا میرا کتنا بل ہے؟۔ میں نے جلدی سے پوچھ لیا کہ کہیں وہ میری انکھوں کی نمی نہ دیکھ لے۔

سات سو چالیس روپے۔ اس نے بل اٹھا کر بتایا اور ایک ہاتھ سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ میں نے بھی اس کو ہزار کا نوٹ تھمایا اور جو پیسے باقی بچے، بوتل کا ڈھکن کھول کر اس میں ڈال دیے۔

جزاک اللہ سر۔  وہ مسکرایا اور کاؤنٹر سے ایک ٹافی اٹھا کر مجھے پکڑادی۔

میں سوچتا ہوا گاڑی میں آبیٹھا۔

غربت کی آگ ضرور  بھڑک رہی ہے ۔مفلسی  کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔

مگرآسمانوں سے ابابیلوں کے جھنڈ بھی، اپنی چونچوں میں پانی کی بوندیں لیے، قطار باندھے اتر رہے ہیں۔

خدا کے بندے اپنا کام کررہے ہیں۔چپ چاپ۔ گم نام۔ صلے و ستائش کی تمنا سے دور۔

اس یقین کے ساتھ کہ خدا دیکھ رہا ہے اورمسکرارہا ہے  کہ اس کے بندے اب بھی اس کے کام میں مصروف ہیں۔

اس مثال سے ہمیں بہت سے اسباق ملتے ہیں، اگر ہم خدا کی راہ میں دینا شروع کر دیں تو اللہ پاک ہمیں دس گُنا واپس کرتا ہے اور اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

مدد کے دیگر طریقے:

اگر آپ لوگ کسی گلی محلے میں رہتے ہیں تو لازمی آپ کے محلے میں ایک تندور والا ہوگا۔ اُن کی فطرت سے آپ لوگ واقف بھی ہوں گے۔ آپ کو اپنے گلی محلے میں جو تندور والا بندہ بھی ایماندار لگتا ہے، اس کے پاس جائیں اور ایک خالی ڈبہ رکھ کر اس کو یہ ساری سکیم بتائیں۔ اور خود سے پچاس یا سو کا ایک نوٹ ڈال کر اس نیک کام کا افتتاح کر دیں، پھر دیکھیں، جو سفید پوش لوگ  بھوک کی زندگی گزار رہے ہیں، آپ کے اس کام کی وجہ سے اُن کی سفید پوشی بھی برقرار رہے گی اور وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بھی بچ جائیں گے۔ تندور والی دکان پہ تو دس روپے کی کی گئی امداد کا مطلب  کسی کے لئے ایک روٹی ہے۔ اور کسی بھوکے کو روٹی کھلانا کتنا بڑا ثواب کا کام ہے۔

اس آرٹیکل کا اختتام ایک خوبصورت سی لائن کے ساتھ۔۔۔۔!

اللہ نے جتنی توفیق دی ہے، اتنی مدد  کرتے رہو۔باقی اللہ ہماری مدد کرتا رہے گا۔

293,470پرستارلائک

لاکھوں لوگوں کی طرح آپ بھی ہمارے پیج کو لائک کر کہ ہماری حوصلہ افزائی کریں۔

شہزاد جلیل
شہزاد جلیلhttps://www.fiverr.com/s2/a0c6bc74c4
میرا نام شہزاد جلیل ہے۔ جامعہ ملتان سے فارغ التحصیل ہوں۔ لکھنا میرا شوق ہے۔ مختلف بلاگز، آن لائن اشاعتوں اور اداروں کے لیے مضامین لکھنے کے علاوہ میں نے مختلف کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ لکھا ہوا لفظ ہی محفوظ شدہ لفظ ہے۔ آپ فیس بک کے ذریعے مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں یا فائیور پر میرا کام دیکھ سکتے ہیں-