ہفتے کے دن شائع ہونے والی وال سٹریٹ جرنل کی ایک خبر کے مطابق سعودی شاہی خاندان اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے میں تنازعہ کا شکار ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والی اس خبر کو بین الاقوامی میڈیا میں کافی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل نے اس خبر کے حوالے سے لکھا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے حواہاں ہیں۔ محمد بن سلمان بھی سمجھتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرح اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کر کے کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور ایران کے ساتھ بھی تنازع کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔
واضح رہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور اسرائیل ایران کو اپنے مشترکہ دشمن سمجھتے ہیں اور اسی حوالے سے امریکا کے بہترین اتحادی سمجھے جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق شاہ سلمان اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے جب تک فلسطینیوں کو ان کی آزاد ریاست کا حق نہ دیا جائے جب کہ محمد سلیمان فلسطین کو نظر انداز کر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں۔ شاہی خاندان میں تناؤ کی یہی ایک سب سے بڑی وجہ ہے۔
لیکن سب سے زیادہ چونکہ دینے والی خبر جو ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اس رپورٹ کا حصہ ہے وہ یہ ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ہونے والے معاہدے سے پہلے سے آگاہ تھے اور انہوں نے جان بوجھ کر اس معاہدے کے بارے میں شاہ سلمان کو نہیں بتایا۔ اور نہ بتانے کی وجہ یہ ہے کہ کہیں شاہ سلمان اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ہونے والے معاہدے میں رکاوٹ نہ بنیں۔
دوسری طرف سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کا کہنا تھا تھا کہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے اگر اسرائیل فلسطین کے علاقوں سے اپنی ساری فوج واپس بلائے کی اور فلسطین کو ان کی آزاد ریاست کا حق دے۔ سعودی عرب اسرائیل کے کسی بھی یکطرفہ منصوبے کو جس میں غیر قانونی طور پر فلسطین کو اسرائیل کا حصہ بنایا جائے قبول نہیں کرے گا۔
مگر یہ بات قابل غور رہے کہ امریکا، امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے بہت سارے لوگ کئی دفعہ یہ بات کہہ چکے ہیں اور بہت سارے عرب ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے راضی ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف سوڈان کے وزیر خارجہ کو ان کی وزارت سے برطرف کردیا گیا تھا یہ کہنے پر کے سوڈان اسرائیل کو تسلیم کرنے والا اگلا ملک ہو سکتا ہے۔