متعلقہ مضامین

مجموعہ مضامین

پاکستانی تاجر نے چینی بسنس مین سے بڑا فراڈ

کراچی: وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے کوآپریٹو...

تَخیُل کے لفظی معنی اور اسکا مطلب

اسم، مذکر، واحدخیال کرنا، خیال میں لانا، وہ خیال...

سربراہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی)  مولانا فضل الرحمان کا اہم بیان

سربراہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی)  مولانا فضل...

عمران خان کے بارے بڑی خوشخبری اچھی خبروں کا آغاز

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس ٹو میں...

24 نومبر کا احتجاج ملتوی؟

اسلام آباد: 24 نومبر کے احتجاج کو لے کر...

حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے ہمارا فیس بک پیج لائک کریں۔

293,505پرستارلائک

روس اور یوکرائن کی جنگ-

انیسویں صدی عیسوی میں پہلی جنگِ عظیم ہوئی تو   دوسری جنگِ عظیم کا آغاز بیسویں صدی عیسوی کے شروع میں ہو گیاتھا ۔  اکیسویں صدی کے پہلے کوارٹر میں ہی روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اب تو چونکہ ایٹمی ہتھیاروں کا زمانہ ہے، اس لئے جنگ سے صرف متعلقہ ملک اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ تعلق(چاہے وہ تجارتی تعلق ہو ، سماجی ہو یا سرحدی ہو) والا ملک بھی بالکل اُسی طرح اثر انداز ہوتا ہے۔

اس آرٹیکل میں آپ  روس اور یوکرائن کی جنگ کے بارے میں تفصیل سے پڑھیں گے۔۔۔۔

روس اور یوکرائن کی جنگ کا آغاز کب  اور کیسے ہوا؟

جنگ کے بارے میں مختلف ماہرین کی رائے۔۔۔

یوکرائن کا  ان نا مساعد حالات میں کن ممالک نے تعاون کیا؟

پاکستان نے اِن حالات میں روس کا ساتھ دیا یا یوکرائن کا؟ 

ان سارے سوالوں کے جواب اس  آرٹیکل میں ملیں گے۔۔

روس اور یوکرائن کی جنگ کا آغاز کب  اور کیسے ہوا؟

فروری کے آخر میں، ولادیمیر پوتن نے روسی فوجیوں کو یوکرین میں بھیج دیا، جس نے ایک انسانی بحران کو جنم دیا جس نے، بہت سے اسکالرز اور تجزیہ کاروں کے مطابق، دہائیوں پرانے عالمی نظام کو تباہ کر دیا ہے۔

جنگ کا آغاز کیسے ہوا؟

روس اور یوکرائن کی جنگ کے آغازکو سمجھنےکے لئے ایک تین کونوں والی (مثلث ) محبت کی کہانی سے مثال سمجھ لیں۔

یوکرائن کی پہلے روس سے منگنی ہوئی تھی وہ ١٩٩١ میں ٹوٹ گئی کہ لڑکا کماتا نہیں۔

اب محلے میں مشہور ہو گیا کہ یوکرائن کا امریکہ نام کے ایک مالدار لڑکے کے ساتھ چکر ہے اور وہ جلد ہی نیٹو نام کی رسم کرنے لگے ہیں۔

امریکہ اور روس کی کالج کے وقت کی دشمنی بھی ہے۔

‏روس نے سمجھایا کہ  دیکھ یوکرائن تو میری عزت ہے۔ امریکہ صرف مجھے تنگ کرنے کے لئے یہ سب کر رہا ہے وہ تجھ سے پیار نہیں کرتا۔

پر یوکرائن کی آنکھیں تو امریکہ کی دولت کو دیکھ کر خیرہ ہو چکی تھیں۔

تو اس نے جواب دیا "جا پکھڑ جیا نہ ہوئے تے میرا امریکہ تیرے دند پن دے گا۔(جا بھوکے انسان، میرا امریکہ تمہارے دانت توڑ دے گا)

‏امریکہ بھی یوکرائن کو دلاسے دیتا رہا کہ میں اپنے برگر دوستوں کو کہوں گا روس سے گیس نہ لیں۔  یہ بھوکا مر جائے گا

روس کی گیس کی ایجنسی ہے نا۔

پر امریکہ یہ بھول گیا کہ روس کا ماما چین ولایت جا کر کافی امیر ہو گیا تھا۔

اس نے کہا "پت پیسے دی پرواہ نہ کر بس نیواں نہ ہوئیں۔(بیٹا پیسے کی پروہ نہ کرنا، بس کسی کے آگے جھکنا نہیں)”

‏یوکرائن روس کے چچا کی بیٹی بھی ہے تو اس کو کریمیا کالونی میں ایک پلاٹ دادا کی طرف سے وراثت میں ملا تھا

اب روس نے یہ رولا  ڈال دیا کہ یہ پلاٹ دادا نے مجھے دیا تھا اور بندے بیٹھا کر قبضہ کر لیا

یہ پیچھے 2014ء  کی بات ہے یہ

‏اب یوکرائن بڑی روئی دھوئی کہ "وے امریکہ اس کنجر کولوں میرا پلاٹ چھڑا”

امریکہ جانتا تھا کہ روس کے پاس اس کے دادا سوویت یونین کی بڑی میگزین والی بندوق ہے تو وہ لڑنا نہیں چاہتا تھا

اس نے کہا کہ "چھوڑو ڈارلنگ ہم اس کو بھوک سے ماریں گے تم نیٹو والی رسم تو کرو پھر اس کو دیکھتے ہیں”

‏یہ خبر روس کو پہنچی تو اس نے اپنے دو چچا زاد کو کہا "یوکرائن کے گھر میں دو کمرے دراصل تمھارے ہیں۔ کر لو قبضہ کوئی اچی نیویں ہوئی میں ویکھ لاں گا۔

پھر وہی یوکرائن کا رونا امریکہ کے دلاسے

امریکہ بھی کیا کرتا اس کے برگر دوست کہتے تھے "ہم روس سے گیس نہ لیں تو بار بی کیو کیسے ہو گا؟”

‏یوکرائن کیونکہ پھر بھی امریکہ سے یاری بڑھائے جا رہی تھی تو اب سنا ہے روس کہہ رہا ہے "ہن میں تینوں چک کے لے جاں گا

اور وہ وڈی بندوق لے کر گھر سے نکل بھی پڑا ہے۔۔۔۔

مزاح سے ہٹ کر اگر اس مسئلے کو سنجیدہ نوعیت سے دیکھا جائے تو جنگ کی وجہ سمجھنے سے پہلے روس اور یوکرائن کی جغرافیائی حیثیت کو دیکھ لیتے ہیں۔ روس اور یوکرائن کی سرحدین ایک دوسرے کے بالکل قریب ہیں۔ ماضی میں یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اچھے دوست رہے ہیں۔ لیکن بعد میں جب امریکہ اور روس کے تعلقات میں تناؤ آیا تو امریکہ نے روس پر حملہ کرنے کے لئے روس کے قریبی ممالک کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانا شروع کر دیا۔ اور ان ممالک پر ڈالرز کی بارش برسانا شروع کر دی تا کہ یہ ممالک امریکہ کو اپنا دوست سمجھیں۔ اور امریکہ ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اپنی فوجیں ان ممالک میں داخل کر کے  اپنے دشمن ممالک پر با آسانی حملہ کر سکے۔ یہی کام اس نے یوکرائن کے ساتھ کیا اور جب روس کو اس بات کا علم ہوا اور روس نے پہلے تو یوکرائن کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن دولت کی چکا چوند روشنی نے یوکرائن کی آنکھیں چندھیا دی تھی۔ اس ساری صورتِحال میں روس نے یوکرائن پر حملہ کرنے کا سوچا تا کہ امریکہ اپنی فوجیں یہاں سے نکالنا شروع کر دے۔۔۔

جنگ کے بارے میں مختلف ماہرین کی رائے۔۔۔

جب کچھ لوگوں نے تنازعہ کو سرد جنگ کی واپسی کے طور پر بیان کیا ہے، شکاگو یونیورسٹی کے ایک مورخ نے دلیل دی ہے کہ ہمیں مزید پیچھے دیکھنا چاہیے۔ پروفیسر فیتھ ہلیس کے مطابق، پیوٹن سوویت یونین کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ 19ویں صدی کے سامراج کو  ایک خطرہ جسے جدید نگرانی کی ٹیکنالوجی نے مزید خطرناک بنا دیا ہے۔

جدید روسی تاریخ کے پروفیسر ہلیس نے کہا ”   میرے خیال میں وہ روسی سلطنت اور اس کے رہنما نظریات کی تشکیل نو کرنا چاہتا ہے، جو کہ راسخ العقیدہ، مطلق العنانیت اور قومیت تھے، سوائے اب، ایک انتہائی نفیس پولیس ریاست کی طاقت کے تحت” ۔

چکاگو یونیورسٹی کی ماہر سیاسیات مونیکا نالیپا کے ساتھ گفتگو کے دوران یوکرین میں جاری بحران کا جائزہ لیا۔

 اس نے 4 مارچ کو گراہم اسکول کے زیر اہتمام ایک تقریب میں، دونوں اسکالرز نے پوٹن کے یوکرین پر حملہ کرنے کے فیصلے کے تاریخی اور سیاسی تناظر کا تجزیہ کیا۔

انہوں نے کہا  کہ  ” ہلیس نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ حملہ پوٹن کی یوکرین کی خودمختاری کے لیے عدم برداشت کا نتیجہ ہے  نہ کہ تاریخی یا ثقافتی رجحانات کا ناگزیر نتیجہ۔ اس کے باوجود تاریخ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کر سکتی ہے کہ روسی صدر یوکرین کے ساتھ اس قدر "جنونی” کیوں ہیں؟۔

لیکن جیسا کہ روس یوکرین میں اپنی جنگی کوششوں کو مستحکم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، آزاد دنیا نے یوکرین کو اپنے ہتھیاروں کی ترسیل میں اضافہ کر دیا ہے۔ مزید برآں، یوکرین کی حکومت نے باضابطہ طور پر جنوبی کوریا کی حکومت سے مہلک امداد کی درخواست کی ہے، حالانکہ ابتدائی طور پر اس درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

تاہم، یوکرین کو مہلک امداد فراہم کرنے کا مقبول مطالبہ بڑھ رہا ہے، خاص طور پر صدر زیلنسکی کے جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی سے خطاب کے بعد۔ جنوبی کوریا کی جانب سے یوکرین کو مہلک امداد بھیجنے کا امکان یقینی طور پر تنازعہ کے آغاز کے بعد سے بڑھ گیا ہے، اور اگر قانون ساز اس طرح کی منتقلی کو منظور کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو اسے جلد از جلد ہونا پڑے گا۔

اس طرح کی گرم منتقلی کا سب سے زیادہ ممکنہ طریقہ پولینڈ میں متعلقہ ہتھیاروں کے نظام کو "برآمد” کرنا ہے، جو اس کے بعد یوکرینی افواج کو ہتھیار منتقل کرے گا۔ جو ممکنہ طور پر موجودہ جنوبی کوریائی انوینٹری سے جنگی تیاریوں کو کم کیے بغیر یوکرین میں منتقل کی جا سکتی ہیں۔

وزارت قومی دفاع کے ترجمان کے مطابق روسی ہتھیاروں کے نظام جو "براؤن بیئر پروگرام” کے ذریعے حاصل کیے گئے تھے، اب بھی موجودہ اسپیئر پارٹس کے ساتھ چل رہے ہیں۔

جنوبی کوریا نے اس سے قبل فن لینڈ اور سعودی عرب جیسے ممالک کو ہتھیاروں کے نظام کی گرم منتقلی کی ہے۔

پاکستان نے اِن حالات میں روس کا ساتھ دیا یا یوکرائن کا؟  

اس جنگ کا آغاز  فروری میں ہوا لیکن ایک دوسرے کو دھمکیاں بہت پہلے سے دی جا رہی تھی۔ پاکستان کے سابقہ وزیرِ اعظم عمران خان نے جنگ والے دن ہی روس کا دورہ کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا اور روس کا بھر پور ساتھ دینے کی ٹھان لی۔ حالانکہ امریکہ کی مخالفت کرنے کا مطلب اپنی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھنا تھا، جو کہ صرف دو ماہ کے قلیل عرصے میں اس کے ساتھ ہوا۔ پاکستان میں حکومتی نا پائیداری ہمیشہ سے رہی ہے۔ عمران خان کو اپریل میں حکومت سے اتارنے کے بعد نئی حکومت قائم ہوئی، اس نئی حکومت نے امریکہ کے کہنے پہ روس کی مخالفت کی اور یوکرائن کا ساتھ دیا۔ مئی کے اختتامی دنوں میں پاکستان کی طرف سے خوراک کے بڑے کنٹینرز بھی یوکرائن کی طرف بھیجے گئے ہیں۔

293,505پرستارلائک

لاکھوں لوگوں کی طرح آپ بھی ہمارے پیج کو لائک کر کہ ہماری حوصلہ افزائی کریں۔