معاہدے میں طے پانے والے کچھ نکات درج ذیل ہیں ہیں-
- دونوں ممالک اگلے ہفتے سے سفارتخانوں کا قیام عمل میں لائیں گے-
- سفارت خانوں کے قیام کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی توانائی ثقافت باہمی پروازوں اور دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی معاہدات طے پائیں گے-
- مزید فلسطینی علاقوں کے اسرائیل میں شمولیت روکی جائے گی-
جہاں ایک طرف متحدہ عرب امارات، اسرائیل، امریکہ، فرانس، سپین، عمان، بحرین، مصر، اس معاہدے کوخطے میں امن کے لیے ایک بڑی پیش رفت قرار دے رہے ہیں وہیں پر دوسرے بہت سارے ممالک اس معاہدے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں-
لیکن المیہ یہ ہے کہ جس طرح کشمیر کے معاملات کشمیریوں کی مرضی کے بغیر دیکھے جاتے ہیں اسی طرح فلسطین کے معاملات میں فلسطینیوں کی کوئی رائے نہیں لی جاتی- انتہائی اہم موقع پر نا فلسطینیوں سے کسی نے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں یا آپ کے مسائل کیا ہیں نہ ہی کسی نے ان کو اس معاہدے میں شامل کرنے کی ضرورت محسوس کی- یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے کی خبر فلسطینیوں کے لیے ایک صدمے سے کم نہ تھی-
تین کے وزیر برائے سماجی معاملات احمد مجدالانی کا کہنا تھا کہ
خاص طور پر جن حالات اور جس تیزی کے ساتھ یہ معاہدہ طے پایا ہے وہ حیران کن ہے،اور یہ معاہدہ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب فلسطینی اپنی آزادی کی جدوجہد کے نازک موڑ پر ہیں-
یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ معاہدہ کتنا کامیاب یا ناکام رہتا ہے – لیکن اسرائیل کے سابقہ چال چلن وعدہ خلافیوں اور ان کی سرشت میں شامل دھوکے بازی کی سے اس کی توقع کم ہے- ہماری یہی دعا ہے ہے کی اللہ پاک اہل فلسطین پر اپنی رحمت فرمائے اور ان کے معاملات میں آسانی کرے-