پاکستان اور موجودہ صورتحال
موجودہ صورت حال کو دیکھ کر دل گھبراجاتاہے کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا؟
کرپشن۔ مہنگائی۔ بیروزگاری۔ لاقانونیت۔ اقرابا ٕ پروری۔ حکومت اور اپوزیشن کی نوک جھونک۔ معاشی بدحالی۔ جغرافیائی مسائل ۔ توانائی کا بحران۔ لسانی اور صوبائیت کی وبا۔ کرونا۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل۔ بڑھتی ہوئی ابادی کے مسائل ۔ علم، سائنس و ٹیکنالوجی کی کمی۔ غیر یقینی صورتحال۔ غیر ذمہ دارانہ رویہ۔ عدم برداشت۔ بے ایمانی۔ ملاوٹ۔ جھوٹ۔ فریب۔ ماحولیات و کلائی میٹ کے مسائل ۔ بھوک و افلاس۔ زرعی زمین کی تباہی۔ فصلوں پر امراض کا حملہ اور کم پیداواری مسائل وغیرہ۔
اب تک ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں ان مسائل کو حل کرتے ہوئے ناکام ہوچکی ہیں لیکن اچانک امید کی ایک کرن (عمران خان) نظر آئی۔ عوام نے کھل کر ووٹ دیا اور وزیراعظم بن گیا۔ دو سال پورے ہو گئے تھے لیکن کچھ خاطر خواہ کامیابی نظر نہیں آئی ۔ وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن اور مافیاز نے کام نہیں کرنے دیا۔ ہر بات پر تنقید۔ ہر بات میں کیڑے نکالنا ان کی عادت بن چکی ہے۔ اگر اگلے تین سال بھی اسطرح گزرے تو پھر کیا ہوگا؟ مارشل لا ٕ یا جمہوریت (پارلیمانی یا صدارتی نظام)
ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آرہا ہے۔ ایک چیز جو پاکستان کی قوت بن سکتی ہے اور اس وقت طاقت میں ہے۔ اور وہ کچھ کرکے دکھائی دیں گے تو وہ ہے نوجوان طبقہ۔ اس وقت تاریخ میں پہلی مرتبہ نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
نیشنل ہیومین ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 64 فی صد اس وقت 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے جبکہ 29 فی صد آبادی 15 سے 29 سال عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔
یہ کچھ کرسکتی ہے۔ میں علامہ اقبال کے شاہینوں (نوجوانوں) سے درخواست کرتا ہوں کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور اسکے مسائل کو جمہوری طریقے سے حل کریں۔ ایک ایماندار پارٹی کو ووٹ دی کے دو تہائی اکثریت دلاؤ اور مافیاز کو قوانین کے ذریعے سے قابو کرو۔ بیشک پرانی ازمودہ پارٹیاں اپکی طاقت کو الیکشن کے بجائے سلیکشن والے بے شرم الفاظ سے ہی کیوں نہ یاد کریں۔ نوجوانوں مستقبل آپ کا ہے اور آپ ہی نے فیصلہ کرنا ہے کہ پاکستان کو چوروں۔ لٹیروں، ڈاکوؤں یا غداروں کے حوالہ کرنا ہے یا ایک ایماندار اور رحم دل انسان کے۔ فیصلہ اپ کے ہاتھ میں اور بھگتیں گے بھی آپ ہی۔
موجودہ صورت حال کو دیکھ کر یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہئے کہ 1947 سے لیکر آج تک پاکستان اور پاکستان کے لوگوں کا خیر خواہ ایک بھی سیا ست دان نہیں۔ سارے اپنے مفاد کے لیئے اپنے خاندان کے عیش عشرت کے لیئے کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہیں اور جب اقتدار میں آ جاتے ہیں تو وہ ظلم کرتے ہیں کہ اللہ بچائے۔ ویسے عوام بھی اپنی بربادی میں خود بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اپنے مفاد کے لیئے جب یہ سیاست دان اپنی من پسند چورن بیچتے ہیں۔ تو آپ کیوں ان کے جھانسے میں آ جاتے ہو۔ ایک بار نہیں بار بار دھوکہ کھا جاتے ہو۔ جاہلیت کے اس مقام پر ہیں کہ شیطان بھی سلام کرے۔ استاد جی ، جی آیا نوں۔ پخیر راغلے۔ خوش امدید۔ ان کے لیئے لیڈر کی بات پتھر کی لکیر اور من عن صحیح ہئے چاہے وہ پیٹرول کا بم گراے، بجلی کے جھٹکے دے یا دوسری طرح مہنگائی کے پٹڑی پر باندھ کر ریل گاڑی اوپر گزار دے۔ غلامی سے نکالنے کا تو سوچنا بھی گناہ تصور کیا جائے گا۔ اگر کسی نے ایسا سوچا وہ غدار ہو گا اور سخت سے سخت دفعات کا سامنا کر کے سلاخوں کے پیچھے ہو گا۔ عوام کو یہ کبھی متحد نہیں ہونے دینگے۔ نفرت اور بد زبانی والے چورن بیچھ کر ایک دوسرے کو لڑاتے ہیں تب انکی دوکان او سوری بازار حوب گرم ہے۔ دھندہ زور و شور سے چل رہا ہئے۔
اللہ کے واسطے اب نکلو اس نفرت والے سیاست سے اور متحد ہو جاو۔ اب نہیں ہونگے تو انجام اس سے بھی برا ہونے والا ہئے۔ چھوڑ دے پارٹی سیاست۔ ایک ہو جائیں پھر دیکھتے ہیں کون مائی کا لال سامنا کر سکتا ہئے اپکا۔ یہ ملک ہمارا ہئے ہم اس ملک کے ہیں۔ یہ کون ہوتے ہیں ہمارے پیسوں پر عیش کر کے انکو جمع کر کے باہر بھاگ جاتے ہیں۔ جتنے بھی سیاسی ، جج، بیروکریٹس، ہر وہ اعلی عہدیدار جو ہمارے پیسوں پے عیش کر رہا ہے وہ اپکو جواب دہ ہو گا۔ بس اب اس صورتحال سے نکلنے کا یہی ایک حل ہے۔
تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت ہے یا ایک انقلابی تحریک؟لازم ہو گیا ہے کہ عمران خان صاحب اس مخمصے سے نکلیں اور اپنے کارکنوں کوبھی نکالیں۔
خان صاحب نے خود کو کئی روز کے لیے، کے پی میں محصور کیے رکھا۔بنی گالہ آئے بھی تو وزیراعلیٰ کے پی کی معیت اور ان کے سرکاری ہیلی کاپٹر میں۔جتنے دن وہ کے پی میں رہے،پارٹی بھی ان کے ساتھ کے پی تک سمٹی رہی۔معلوم ہوتا تھا کہ پورے پاکستان میں کسی اور جگہ پی ٹی آئی کا کوئی وجود نہیں۔اسی دوران میں مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا گیا۔پارٹی کے سکریٹری جنرل عمر اسد کی قیادت میں اسلام آباد میں احتجاج ہواجویہاں سے قومی اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔یہاں کے دوسری نشست بھی پی ٹی آئی کے پاس ہے۔اس کے باوجود ”دنیا“ کے رپورٹر کے مطابق،اسی سے نوے افراد مظاہرے میں شریک ہوئے۔
اب ایسا بھی نہیں کہ پی ٹی آئی اس سے زیادہ افراد جمع نہیں کر سکتی تھی۔کارکنو ں کی اس عدم دلچسپی کا سبب یہی مخمصہ ہے۔انہیں منزل کا پتا ہے نہ راستے کا۔سیاسی جماعت اور سیاسی تحریک کی منزل ایک ہوتی ہے نہ راستہ۔25۔مئی کو جو کچھ ہوا،وہ بھی دراصل اسی مخمصے کا نتیجہ تھا۔بیانیہ تحریک کاتھا اور اقدام سیاسی جماعت کا۔یوں کارکن مایوسی سمیٹے گھروں کو لوٹ گئے۔
گزشتہ ہفتے عشرے کے دوران میں پی ٹی آئی نے جو سرگرمی کی،وہ کے پی تک محدود تھی۔ملک کے باقی حصوں میں کیوں نہیں؟عمران خان صاحب اگر صوبے سے باہر نہیں نکلے تو اس کی وجہ سمجھ میں آ سکتی ہے۔ دیگر قیادت مگر کہاں تھی؟شاہ محمودقریشی صاحب کیوں نہیں نکلے؟دھرنے میں ان کی سیاسی موجود گی کی کوئی شہادت مل سکی نہ اس کے بعد۔یہی معاملہ دوسرے راہنماؤں کا ہے۔کیا تحریک انصاف ون مین شو ہے؟کیا اس میں کوئی دوسرا آدمی ایسا نہیں جو چند ہزار افراد جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو؟یہ تمام تر صورتِ حال اس ابہام کا ناگزیر نتیجہ ہے،جس کاخود خان صاحب شکار ہیں اور نتیجتاًان کے کارکن بھی۔
سیاسی جماعتیں موجود نظام کو قبول کرتے ہوئے تبدیلی کی جدوجہد کرتی ہیں۔وہ قانون کومانتی ہیں اور اس کے دائرے میں رہتی ہیں۔اس کے ساتھ تدریج اور اس پر یقین رکھتی ہیں کہ دنیا میں بڑی تبدیلی پلک چھپکنے میں نہیں آتی۔یہ جماعتیں موجود نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لیتیں اور عوامی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔اس کے لیے وہی راستہ اپناتی ہیں،قانون اور آئین جس کی اجازت دیتے ہیں۔
تحریک انصاف کی قیادت ایک طرف انقلاب کی بات کرتی ہے اور ’سٹیٹس کو‘ کی قوتوں کو للکارتی ہے۔دوسری طرف اسی نظام کو قبول کرتے ہوئے تبدیلی کی بات کرتی ہے جس کی ناگزیرضرورت ’سٹیٹس کو‘ کی قوتوں سے مفاہمت ہے۔ آج تحریکِ انصاف یہ کہہ رہی ہے کہ نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔یہ اعلان کون کرے گا؟ ظاہر ہے کہ حکومت۔ایک طرف آپ کا موقف ہے کہ یہ حکومت ناجائز ہے اوردوسری طرف آپ اسی سے مطالبہ بھی کررہے ہیں۔
پھر یہ انتخابات کون کرائے گا؟ فوج؟ عدلیہ؟ الیکش کمیشن؟ یہ سب ادارے ’سٹیٹس کو‘ کی علامتیں ہیں۔ان کی قیادت،آپ کا خیال ہے کہ میر جعفروں کے ہاتھ میں ہے۔کیا آپ ان کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کو قبول کر لیں گے؟ اگر تحریکِ انصاف یہ طے کرلیتی ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت ہے تو ان سوالات کے جواب اس کے لیے مشکل نہیں رہتے۔پھر وہ اس ’سٹیٹس کو‘ سندِ جواز فراہم کرے گی اور مخمصے سے نکل آئے گی۔اب اگر وہ خود کو انقلابی جماعت سمجھتے ہوئے،جو کلی تبدیلی کی علم بردار ہے،اس سب کچھ کو قبول کرتی ہے تو اس کا مخمصہ باقی رہے گا۔خان صاحب کی انقلابی سوچ مانع ہے کہ وہ کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھیں یا مذاکرات کریں۔ دوسری طرف ان کے لیے میر جعفر بھی قبول ہیں اور میر صادق بھی۔
اس معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیے۔ ’سٹیٹس کو‘کی نمائندہ قوتوں کی نصرت سے جو ’انقلاب‘ آتا ہے وہ لازم ہے کہ ان قوتوں کو قبول کرے۔علامہ اقبال نے برسوں پہلے نشا ندہی کی تھی کہ اس خطے کا مسلمان تین قوتوں کے ہاتھوں میں یرغما ل بنا ہواہے۔اقبال کے الفاظ میں ان کا کشتہ ہے۔پیری،سطانی اور ملائیت۔خان صاحب کے ایجنڈے میں ان کا کہیں گزر نہیں۔یہی نہیں،پارٹی کا وائس چیرمین،پاکستانی سیاست کی واحد شخصیت ہے جو ان تینوں کی تنہا نمائدہ ہے۔اب ان لوگوں کے ساتھ مل کر کیاکوئی انقلابی تحریک اٹھائی جا سکتی ہے۔پاکستان کے معروضی حالات میں ایک چوتھی قوت اسٹیبلیشمنٹ بھی ہے۔جس جماعت کی قوتِ پرواز یہ ہوکہ اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے سروں سے کیوں ہاتھ اٹھا لیا،کیاوہ کوئی انقلابی تحریک اٹھا سکتی ہے؟
جب تک تحریکِ انصاف اپنی سیاسی جنس کے بارے میں واضح نہیں ہوگی،اسے ’نیوٹرل‘ ہی سمجھا جائے گا۔تحریکِ انصاف کے پاس جو مردانِ کار موجود ہیں،ا ن کے ہوتے ہوئے،تحریکِ انصاف کے لیے محفوظ راستہ یہی ہے کہ وہ خود کو ایک سیاسی جماعت کے طورپر منظم کرے۔یہ نہ صرف پارٹی کے مفاد میں ہے بلکہ پاکستان کے مفاد کا تقاضا بھی یہی ہے۔پاکستان کو مضبوط سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔پاکستان کے آئین نے ان کے لیے یہ راستہ کھول دیا ہے کہ وہ جمہوری طریقے سے ملک کے نظام میں بہتری لا سکتی ہیں۔پھر یہ کہ قومی سیاسی جماعتیں ملک کو متحد رکھتی ہیں جو ملک کے تمام حصوں میں نمائندگی رکھتی ہوں۔تحریکِ انصاف ہر جگہ موجود ہے۔اگر وہ خود کو ایک قومی سیاسی جماعت کے طور پر منظم کرے تو نہ صرف ایک بارپھر اقتدار تک پہنچ سکتی ہے بلکہ ملک کے استحکام اور وحدت کے لیے بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔یوں بھی جمہوریت کے آنے سے انقلاب کا متبادل راستہ بند ہوچکا۔
انقلابی سوچ نے محض دو ماہ میں تحریکِ انصاف کو وفاق کے بجائے،کے پی کی جماعت بنا دیا ہے۔اس پر وزیراعلیٰ کے پی جیسے لوگوں کے بیانات،جو نہ وفاق کو سمجھتے ہیں اور نہ سیاسی نزاکتوں کو۔اگر اس سیاسی حکمتِ عملی پر نظرثانی نہ کی گئی تو تحریک انصاف آج کی عوامی لیگ بن جائے گی۔ تحریکِ انصاف کو اس انجام سے بچانا،خان صاحب کے لیے آج کاسب سے بڑا چیلنج ہے۔
سیاسی جماعت بننے کے لیے دوکام تو فوری طور پر کرنا ہوں گے۔ایک یہ کہ پارسائی کے خودساختہ سنگھاسن سے اترکر اہلِ سیاست سے مکالمہ کر ناہو گا۔اس کے لیے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں آ کر موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے۔دوسرا یہ کہ اس نظام کو چلنے دیناہوگا تاکہ اگلے سال انتخابات ہو سکیں اور اس سے پہلے ملک کومعاشی اور سیاسی استحکام میسر آجائے جو پرامن انتقالِ اقتدار کے لیے ناگزیر ہے۔
ہمارے موجودہ سیاستدان تو کہتے ہیں کہ ان کے پاس زہر کھانے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔
زہر کھانے کو پیسے نہیں
لیکن
وزیر خارجہ 25 تاریخ سے حنا ربانی کھر کے ساتھ سوئٹزرلینڈ میں بیٹھا ہے۔ اس سے پہلے امریکہ میں تھا،
20کروڑ بار ایسوسی ایشن کو ملے
135کروڑ اشتہارات پر لگے
8 کروڑ کا پی ایم ہاؤس میں سوئمنگ پول بنا۔
پی ایم ہاؤس کی آرائش کے لئے 20 کروڑ اور ہیلی کاپٹروں کی مرمت کے 5 ارب مختص کیا گیا۔
5بیرونی دورے پوری خاندانی بارات کے ساتھ
وزیر اعظم کی بھتیجی کو 20 گاڑیوں، 25 موٹر سائیکلوں اور 200 پولیس افسران کا پروٹوکول فراہم، خرچہ عوام کی جیب سے وصول کیا جائے گا ۔
ذاتی گھروں کو وزیر اعظم ہاؤس قرار دے کر اُنکی تعمیر و مرمت ، یوٹیلٹی بلز، سیکیورٹی، ملازمین اور کھانے پینے کے تمام اخراجات عوام کی جیب سے وصول کیے جائیں گے ۔
پنجاب ہاؤس، گورنر ہاؤس، مری ہاؤس اور تمام سرکاری گیسٹ ہاؤس صرف شریف خاندان کے تصرف میں
وزیر اعظم ہاؤس کے باتھ روموں پر 5 کروڑ روپے لگایا گیا۔
ستر لاکھ روپے کا صرف ایک ڈنر کروایا گیا ، لفافہ صحافیوں کو اب تک کتنے ڈنر ہو چکے حساب خود لگا لیں۔
کابینہ ڈویژن کے چار جہازوں کی مرمت کیلئے 40 ارب روپے کے فنڈز ریلیز کئے گئے۔
مال مفت دل بے رحم۔۔