وطن عزیز جب سے وجود میں آیا ہے ۔مسائل میں گھرا ہوا ہے ۔غربت، تعلیم کی کمی، آبادی کی شرح میں بے بہا اضافے اور نا اہل سیاستدانوں نے ہمارے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ آذادی کے بعد سے مسلسل ہمارا ملک ان مسائل کو حل کرنے میں لگا ہوا ہے ۔لیکن کہیں کوئی نجات کا رستہ دکھائی نہیں دیتا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم ایک ایٹمی پاور ہوتے ہوئے بھی قرضوں کے بوجھ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ہمیں دوست ممالک سے بھیک مانگنی پڑتی ہے؟ کیا پاکستان قدرتی وسائل نہیں رکھتا؟یا پھر ہم اتنے کم ہمت ہیں کہ ان وسائل کو بروئے کار لا سکیں؟
پچھلی کچھ حکومتوں نے اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے وطن عزیز کو قرضوں کے بوجھ تلے دفنا دیا ہے۔جن پر سود کی رقم الگ چڑھتی جا رہی ہے۔ہر حکومت پچھلوں پر سارا ملبہ ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتی آئی ہے۔
حالیہ کورونا کی وباء کے بعد بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔مہنگائی بھی اپنے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ رہی ہے۔تیل، گھی، آٹا اور چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔150 روپے کلو والا تیل 580 میں بک رہا ہے۔900 روپے آٹے کی بوری 1500 روپے میں مل رہی ہے۔غرض ہر شے جو روزانہ کی بنیادوں پر استعمال ہوتی ہے اسکی قیمت کو پر لگ گئے ہیں ۔کیا ایک دیہاڑی دار مزدور گھر چلا سکتا ہے؟ یا وہ خاندان جن کی کفالت کا زمہ ایک شخص پر ہو کیا ان کے گھر کا خرچہ آسانی سے نکل سکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔
اس وقت پاکستان دیوالیہ ہونے کے نزدیک پہنچ چکا ہے۔ایسے وقت میں ملک دوطبقات میں بٹ چکا ہے۔بہت غریب اور بہت امیر۔ امیر طبقہ امیر ترین ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب ترین۔دوست ممالک نااہل سیاستدانوں کی وجہ سے منہ پھیر چکے ہیں۔ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری بند ہوچکی ہے۔اسٹاک ایکسچینج اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔روز ڈالر اور سونے کے ریٹ میں اضافہ ہونے لگا ہے۔IMF قرضہ دینے سے انکاری ہے۔اگر دے بھی رہا ہے تو بدلے میں مزید مہنگائی کی ڈیمانڈ کرتا ہے جس سے ملک کا مڈل کلاس طبقہ مہنگائی کی نئی لہر تلے پس جاتا ہے۔
چند دن پہلے پیش ہونے والے نئے بجٹ میں مہنگائی کا ایک اور طوفان آنے والا ہے۔جس میں ہر شے کی قیمت دوبارہ چڑھ گئی ہے۔حکومت اور وزراء بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہے۔ ہر 10 دن بعد پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے اور مہنگائی کا ایک نیا طوفان آجاتا ہے۔کچھ عوام میں موجود منافع خور بھی موقع کا فائدہ اٹھانے لگتے ہیں اور کھانے پینے کا سامان، گندم، چینی وغیرہ گوداموں میں بھر کر سپلائی بند کر دیتے ہیں۔ جس سے عوام کو مہنگائی کے ساتھ خواری بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔
آج تک آنے والی ہر حکومت ایسے منافع خور مافیاز کا صفایا کرنے میں ناکام رہی ہے ۔جس کا نقصان ملکی خزانے اور عوام دونوں کو پہنچتا ہے۔حالیہ کمرتوڑ مہنگائی سے ایک عام آدمی کے گھر کا خرچ چلنا مشکل ہوگیا ہے۔2 سے 3 سال پہلے جس قیمت پر سودا خریدا جاتا تھا آج وہی سودا تین گنا ذیادہ قیمت پر لینا پڑ رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس ہوشربا مہنگائی کے دور میں ایسی کون سی تدابیر اختیار کی جائیں ۔کہ گھر کا خرچ چلانا ممکن ہوسکے۔ذیل میں ہم کچھ ایسی تجاویز پر بات کریں گے جن سے گھریلو خرچہ چلانے میں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔
١۔سودا سلف لینے جائیں تو ایک نظر گروسری لسٹ پر ڈال لیں۔جن چیزوں کے بغیر گزارا ممکن ہے۔کوشش کریں اور ان کی خریداری نا کریں۔
٢۔اپنے گھر میں چھوٹے چھوٹے سبزی کے پودے لگائیں ۔جیسے مرچ، بھنڈی، دھنیا پودینہ اور ٹماٹر وغیرہ۔تاکہ یہ روزمرہ کی استعمال ہونے والی اشیاء کے خرچے سے بے فکری رہے۔
٣۔ذیادہ سے ذیادہ پاکستانی پراڈکٹس خریدیں تاکہ ملک کی معیشت سنبھل سکے۔غیر ملکی اشیاء کا استعمال کچھ عرصے کے لیے بند کر دیں۔
٤۔سبزیوں اور دالوں کا استعمال کریں تاکہ منافع خوروں کی گوشت اور مرغی پر بڑھائی گئی ناجائز قیمتیں کم ہو سکیں۔
ان تمام اقدامات سے آپ کچھ بے فکر ہو سکتے ہیں۔حالیہ مہنگائی اس وقت تاریخ کی سب سے ذیادہ مہنگائی ہے۔ایسے وقت میں اس بات کی ضرورت ہے ۔کہ اپنے ملک کے ساتھ محبت کا ثبوت پیش کیا جائے۔ملکی اشیاء کو خریدا جائے اور پروموٹ کیا جائے۔اپنے گلی محلوں میں رہنے والے غرباء کا خیال رکھا جائے۔آپ کے اردگرد بہت سے لوگ ایسے ہونگے جو ایک وقت کا کھاتے ہونگے اور اگلے وقت بھوکے سوتے ہونگے۔ہمیں ان کی بھی پرواہ کرنی چاہیے۔ایک دوسرے کے احساس سے ہی ہم دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں گے۔