لاہور کے نجی کالج کے ایک کیمپس میں ریپ کے الزامات کے سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے کے فوراً بعد ایک ویڈیو وائرل ہوئی، اسے سوشل میڈیا پر 20 لاکھ سےزائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے جس میں پنجاب کے وزیر تعلیم پر ایک عورت اور ایک مرد کے ساتھ جنسی تشدد کا الزام لگایا گیا ہے۔
یہ دعویٰ غلط ہے۔ یہ ویڈیو تین سال پرانی ہے اور اس کا حال ہی میں لاہور میں ہونے والے مبینہ ریپ کے الزامات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
دعویٰ
12 اکتوبر کو سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹس گردش کرنے لگیں جن میں یہ الزام لگایا گیاکہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں واقع نجی پنجاب گروپ آف کالجز میں ایک لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ کچھ دنوں بعد سوشل میڈیا صارفین نے 54 سیکنڈ کی ویڈیو پوسٹ کرنا شروع کر دی جس میں ایک شخص کوکمرے میں موجود ایک جوڑے کو جسمانی اور زبانی طور پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پوسٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ویڈیو میں موجود شخص پنجاب کا اسکول ایجوکیشن منسٹر رانا سکندر حیات ہے جو حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر خاتون اور مرد پر تشدد کر رہا ہے۔
ایک صارف نے X (سابقہ ٹوئٹر) پر 17 اکتوبر کو ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا کہ ”پاکستان کے صوبہ پنجاب میں مریم نواز کی حکومت میں وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے ایک لڑکی کو برہنہ کیا اور کیمرے کے سامنے اس کا ریپ کیا، اس لڑکی اور اس کے ساتھی لڑکے کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے لاہورکے ایک نجی تعلیمی ادارے میں لڑکی کے ساتھ زیادتی کے خلاف ہونے والے احتجاج میں حصہ لیا تھا۔“
اس نیوز آرٹیکل کے شائع ہونے تک اس پوسٹ کو 2ہزار 500 مرتبہ شیئر اور 3ہزار 800بار لائک کیا گیا جبکہ اس ویڈیو کو 2 لاکھ 60 ہزار 500 دفعہ دیکھا گیا۔
حقیقت
ویڈیو میں نظر آنے والا شخص رانا سکندر حیات نہیں ہے۔ یہ ویڈیو دراصل تین سال قبل نومبر 2020 میں عثمان مرزا نامی ایک شخص نے ریکارڈ کی تھی جس نے اسلام آباد کے ایک فلیٹ میں اسلحہ کے زور پر ایک مرد اور عورت پرجسمانی تشدد کیا تھا۔
عثمان مرزا کے مرد اور عورت پر تشدد کی ویڈیو کچھ عرصہ بعد وائرل ہونے کے پر اسے اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور بعد میں 2022 میں ڈسٹرکٹ کورٹ نےانہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
اس واقعہ کو اس وقت کے کئی مقامی اور بین الاقوامی خبر رساں اداروں نے بھی رپورٹ کیا، جن کو یہاں، یہاں اور یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔