ڈاکٹر آمنہ جاوید
پاکستان میں خواندگی کی شرح انتہائی کم ہونے سے صحت کے حوالے سے عموماً ایسے کئی مغالطے رائج ہو چکے ہیں، جن کی وجہ سے خواتین کوئی خطرناک مرض لاحق ہونے کے باوجود اپنے مرض سے لاعلم رہتی ہیں۔جیسا کہ بریسٹ کینسر۔اس لئے”نیشنل بریسٹ کینسر فاؤنڈیشن“ کے زیرِ اہتمام ہر سال دنیا بھر میں اکتوبر کا پورا مہینہ ”بریسٹ کینسر آگہی“ کے طور پر منایا جاتا ہے، تاکہ خواتین میں شعور اُجاگر کر کے بریسٹ کینسر سے متعلق درست معلومات عام کی جا سکیں۔بریسٹ کینسر لاحق ہونے کے اصل اسباب کا تاحال علم نہیں ہو سکا، لیکن چند عوامل ہیں، جنہیں رسک فیکٹر کہا جاتا ہے۔جیسا کہ سرِفہرست خاتون ہونا ہی رسک فیکٹر ہے۔علاوہ ازیں، بڑھتی عمر، 30 سال یا اس سے زائد عمر میں پہلا حمل ٹھہرنا، ماں کا نومولود کو اپنا دودھ نہ پلانا، 50 برس کی عمر تک ماہواری آنا، مانع حمل ادویہ، بانجھ پن، ہارمون ری پلیسمینٹ تھراپی، موٹاپا، تمباکو نوشی، الکوحل کا استعمال، مرغن، فروزن غذاؤں کا استعمال، ماحول کا صاف ستھرا نہ ہونا، آلودگی اور فیملی ہسٹری (مثلاً والدہ، بہن، نانی، دادی وغیرہ) میں بریسٹ کینسر ہونا شامل ہیں۔
بریسٹ کینسر بتدریج بڑھ کر ایک گلٹی (Lump) کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔یہ گلٹی دبانے سے باآسانی محسوس کی جا سکتی ہے۔اگر خدانخواستہ گلٹی کی بروقت تشخیص نہ ہو سکے یا پھر تشخیص کے باوجود کسی بھی وجہ سے علاج میں تاخیر کی جائے، تو اگلے مرحلے میں سرطان بغل کے گلینڈز اور پھر جسم کے دیگر حصوں مثلاً جگر، پھیپھڑوں اور ہڈیوں وغیرہ میں پھیل جاتا ہے۔بریسٹ کینسر کی اقسام معمولی، درمیانی اور شدید نوعیت کی ہوتی ہیں۔ان اقسام میں Ductal عام ہے۔تشخیص کے لئے اونکولوجسٹ کے معائنے کے بعد میموگرام اور بائیو آپسی تجویز کی جاتی ہے۔علاج کے مختلف طریقے مستعمل ہیں، جو مرض کی قسم اور اسٹیج کے اعتبار سے اختیار کیے جاتے ہیں۔ان میں سرجری، کیمو تھراپی،ریڈی ایشن تھراپی، جین تھراپی شامل ہیں۔
مختلف سائنسی تحقیقات اور مشاہدات نے یہ ثابت کیا ہے کہ جو خواتین دن بھر میں پانچ بار پھل و سبزیاں کھاتی ہیں، وہ خود کو ہر قسم کے سرطان سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔سبزیوں اور پھلوں میں سرطان کا مقابلہ کرنے والے نباتی کیمیکلز کے علاوہ ریشہ بھی پایا جاتا ہے۔پالک، میتھی، کلفہ، چولائی اور ساگ کی دیگر اقسام کے علاوہ گوبھی، گاجر، مولی، شلجم، چقندر (پتوں سمیت) ٹماٹر، کھٹے پھلوں اور بیر میں یہ کیمیائی اجزاء (جنہیں فائٹو کیمیکلز کہا جاتا ہے) وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق جاپانی خواتین بریسٹ کینسر سے محفوظ رہتی ہیں اور اس کی اہم وجہ ان کی غذاؤں میں پھلوں کی کثرت ہے۔بریسٹ اور دیگر تمام اقسام کے سرطان سے محفوظ رہنے کے لئے اپنا وزن کنٹرول میں رکھیں، خاص طور پر سن یاس کے بعد خواتین کا موٹاپا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔اس خطرے سے بچاؤ کے لئے ورزش بھی مناسب ہے۔
ایک جائزے کے مطابق ورزش کرنے والی خواتین بریسٹ کینسر سے 26 فیصد زیادہ محفوظ پائی گئیں۔اس طرح چکنائیوں کا مناسب استعمال بھی بریسٹ کینسر سے بچاؤ کا اہم ذریعہ ہے۔پھر جسم کا اخراجی نظام فعال رکھا جائے۔گردے، آنتیں، معدہ اور جلد جسم کے مضر اجزاء کے اخراج کا قدرتی ذریعہ ہیں۔بروقت اجابت، پیشاب کا کھل کر آنا اور جسم سے پسینے کے قدرتی اخراج سے جسم میں مرض پیدا کرنے والے مضر مادے ازخود جسم سے خارج ہوتے رہتے ہیں۔پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔سرطان پر تحقیق کرنے والے اونکولوجسٹس اس بات پر متفق ہیں کہ اینزائمز کی فراہمی سرطان سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اینزائمز کے حصول کا بہترین ذریعہ تازہ، کچی سبزیاں ہیں۔اونکولوجسٹس نے خبردار کیا ہے کہ بریسٹ کینسر سے بچاؤ اور اس کے علاج میں معاونت کے لئے ضروری ہے کہ چکنائی اور چربی والے کھانوں سے حتیٰ الامکان گریز کیا جائے۔ماہرینِ سرطان کے مطابق کیروٹین والی غذائیں جن میں بیٹاکیروٹین بھی شامل ہوتا ہے، منہ، مثانے، پھیپھڑوں اور بریسٹ کے سرطان سے محفوظ رکھتی ہیں۔یہ تحفظ ایسی غذاؤں سے حاصل ہونے والے حیاتین الف سے ملتا ہے۔زرد رنگ کی سبزیاں جیسے گاجر، لال کدو، شکر قندی اور پھلوں میں آڑو، آم، پپیتا اور ٹماٹر میں بکثرت کیروٹین پایا جاتا ہے۔واضح رہے کہ یہی بیٹاکیروٹین جسم کے اندر پہنچ کر حیاتین الف (وٹامن اے) میں تبدیل ہو جاتا ہے۔معدنی نمک کا استعمال کریں۔معدنی نمکیات کے علاوہ سیلی نیم (Selenium) خاص طور پر ایک اہم مانع تکسید ہے۔یہ جسم کو فری ریڈیکلز کے مضر اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔انگلینڈ میں کیے جانے والے ایک حالیہ مطالعے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جن افراد کے جسم میں سیلی نیم کی مقدار کم تھی، ان میں سرطان کے علاوہ ذیابیطس اور امراضِ قلب میں مبتلا ہونے کا خطرہ تین گنا زائد پایا گیا۔لہسن، پیاز، ککڑی، مولی اور بے چھنے آٹے کی روٹی میں اس کی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ خواتین ہچکچاہٹ کے سبب اپنے طبی مسائل بیان نہیں کرتی ہیں، جو درست نہیں۔اگر کسی خاتون کو بریسٹ کینسر لاحق ہو اور اس کی بروقت تشخیص نہ ہو سکے تو وہ نہ صرف زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے، بلکہ علاج کے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں۔بہتر تو یہی ہے کہ ہر خاتون مہینے میں کم از کم ایک بار خود بریسٹ کا معائنہ کرے، تاکہ معمول سے ہٹ کر کسی بھی قسم کی تبدیلی یا علامت محسوس ہونے پر بروقت تشخیص اور علاج ممکن ہو سکے۔