صحافت کسی بھی ملک کی سیاست کا ایک اہم حصہ ہوتی ہے اور اس ملک کے عوام پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ ایک صحافی ملک میں آنے والی مختلف معاملات کی تحقیق کرتا ہے اور اس پر پھر اپنی ایک انصاف پر مبنی اور پیمانے کے مطابق رائے قائم کرتا ہے اور پھر عام عوام اس کی رائے اخبار سے پڑھتے ہیں یا براہ راست ٹی۔وی پر سنتے ہیں اور پھر عوام اس پر اپنی رائے رکھتے ہیں۔
اگر صحافی یہ رائے قائم کرنے میں انصاف اور عدل سے کام لیتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس نے اپنے دماغ اور قلم کی طاقت سے ایک فائدہ بخش بات کی ہے جس سے لوگ ایک سیدھے راستے کی طرف راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایک صحافی ملکی معاملات میں اپنی رائے قائم کرنے میں کسی قدر تعصب کا اظہار کرتا ہے یا وہ پیمانہ جس کے مطابق اس نے یہ رائے قائم کی ہے، سراسر غلط ہو تو اس صورتحال میں اخبار پڑھنے والے یا ٹی۔وی دیکھنے والے گمراہی کا شکار ہو سکتے ہیں جو کہ ایک صحافی کے لیے یا ملک و قوم کے لیے کوئی موزوں یا بہتر بات ثابت نہیں ہو سکتی۔
جہاں تک پاکستان میں صحافت کا تعلق ہے، تو پاکستان میں صحافت اول دن ہی سے زبوں حالی کا شکار رہی ہے۔ کہیں ایک پیمانہ یا میرٹ کی کمی ہے تو کہیں انصاف پر مبنی رائے کی قلت ہے۔ کہیں صحافت تعصب کے زیر پروان چڑھتی نظر آتی ہے تو کہیں اسے رشوت اقرباپروری جیسی بیماریاں لاحق ہیں۔ پاکستان کے وجود میں میں آنے کے وقت سے لے کر آج تک صحافت کا یہی حال ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک صحافت کا معیار بتدریج گرتا ہی چلا جا رہا ہے اور ہمہ وقت تنزلی کا شکار ہے۔
پاکستان میں صحافت کی خرابی کی کئی شکلیں ہیں جن میں رشوت کے زیر اثر آ کر اپنی رائے کو بدل دینا سر فہرست نظر آتی ہے۔ پاکستان میں صحافی پیسوں سے خریدے جا سکتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کتنے ہی صحافی اس معاملے کی وجہ سے الزامات کا شکار رہے ہیں۔
وہ ایک غیر حقیقی رائے عوام کے سامنے وثوق کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ رائے انہوں نے محض رشوت کے زیر اثر آ کر قائم کی تھی۔ بڑے بڑے با اثر لوگ صحافیوں کو ان کی مانگ کے مطابق پیسے دے کر ان سے اپنے حق میں بات کروا لیتے ہیں اور اپنے مفاد کے مطابق عوام میں سنسنی پیدا کر دیتے ہیں۔
یہ سب صحافی اور ان بڑے بڑے با اثر لوگوں کے حق میں تو بہتر ہو سکتا ہے لیکن عوام کی سطح پر یہ بات نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ بڑے بڑے با اثر لوگوں میں حکومتی لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں اور اپوزیشن کے لوگ بھی۔ ظاہر ہے کہ اپوزیشن کے لوگ صحافی کو پیسے دے کر حکومت کے خلاف بولنے پر مجبور کریں گے اور حکومت کے لوگ صحافی کو پیسے دے کر اپوزیشن کے خلاف بولنے پر آمادہ کرلیں گے۔
ایک صحافی کا رشوت کے زیر اثر رائے قائم کرنا تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس سے سچ اور حقیقت معدوم ہو کر رہ جاتی ہے۔ عوام میں سنسنی برپا رہتی ہے کہ نہجانے کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ، کچھ سمجھ نہیں آتی۔
تحائف بھی رشوت کی ایک شکل ہوتے ہیں۔ Sinclair اپنی ایک کتاب Brass Check میں ایک مئیر اور صحافی کے بارے میں بتاتا ہے کہ شہر کا مئیر ایک صحافی کو تحفے دیتا ہے اور اس سے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس سے اپنے مفاد کا کام کروا سکے۔ تحائف مختلف قیمتوں اور شکلوں کے ہو سکتے ہیں جیسے کوئی چھوٹی رقم یا کوئی دنیا کے دورے کی ٹکٹ وغیرہ۔ اگر صحافی تحائف لے کر بات کی حقانیت کو بھلا کر تحائف دینے والے کے حق میں بات کرے تو یہ گھٹیا حرکت ہے جس کا سچائی سے کوئی واسطہ نہیں۔
دوسری مثال غیر اخلاقی صحافت کی یہ ہے کہ صحافی اپنی پسند کی رائے پیدا کر کے تنازعے کو جنم دیتے ہیں۔ جب سچ بات میں جھوٹ کو فروغ دیا جائے تو تنازعہ تو پیدا ہو گا ہی۔ صحافی معاملے کی تحقیق کیے بغیر کچھ بھی رائے قائم کر لیتے ہیں کیونکہ وہ ان کے مفاد میں ہوتی ہے اور عوام اس وجہ سے گمراہی کا شکار ہوتی ہے۔
اپنے یا کسی دوسرے کے مفاد میں ایسی رائے پیش کرنا جو حقیقت سے دور ہو، کسی صحافی کے لیے جائز نہیں۔ مثال لیں اگر ملک میں کوئی حادثہ ہوا ہے۔ اگر صحافی حکومت کے خلاف ہے تو وہ اس کا ذمہ دار کلی طور پر حکومت کو ٹھہرائے گا چاہے حکومت کا قصور ہو یا نہ ہو۔ لیکن اگر صحافی اپوزیشن کے خلاف ہے تو وہ اس معاملے تو حکومتی ناکامی کی بجائے محض ایک ان چاہا واقعہ بنا کر عوام کے سامنے پیش کرے گا اور عوام یہ ماننے پر مجبور ہوں گے اس حادثے میں حکومت کا کوئی قصور نہیں چاہے حکومت ہی ذمہ دار ہو۔
ایک اور کوتاہی جو پاکستانی صحافی صحافت کرتے ہوئے کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ تمام معلومات جو عوام کو بتانی چاہئیں نہیں بتاتے۔ عوام کا بنیادی حق ہے کہ تنقید کرنے والے معاملے کی چھان بین کے بعد وہ معلومات جو ان کو ملی ہیں، عوام کو بتا دیں۔ اس کے برعکس صحافی ضروری معلومات عوام سے چھپا لیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے عوام سچائی کے علم سے محروم رہ جاتے ہیں۔
اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک وجہ تو صحافی کا اپنا مفاد ہو سکتا ہے اور دوسرا چند با اثر لوگ یہ نہیں چاہتے کہ عوام کو وہ معلومات معلوم ہوں جن کی وجہ سے ان کی اپنی کرسی خطرے میں پڑ جائے۔ اس کے لیے وہ صحافیوں کو پیسے دے کر کچھ معلومات عوام سے چھپا لیتے ہیں۔
صحافت کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی بھی معاملے کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرنا، اس کا تجزیہ کرنا، ثبوت اکٹھے کرنا اور پھر ایک نتیجے پر پہنچنا اور وہ نتیجہ کسی بھی ذریعہ ابلاغ کی مدد سے صحیح طریقے سے اور صحیح وقت پر عوام میں پہنچانا۔ اگر آپ ضروری معلومات چھپا جاتے ہیں تو یہ صحافت کی دنیا میں غیر اخلاقی حرکت ہے۔ معیار یہ ہے کہ جونسی خبر جس وقت اور جتنی دینا ضروری ہے اس وقت اور اتنی دے جائے۔ ضرورت سے زیادہ معلومات دینا غیر ضروری اور ضرورت سے کم دینا غیر اخلاقی ہے۔
ایک اور غیر مہذب حرکت جو پاکستانی صحافت کی دنیا میں عام ہے وہ ہے کہ سچ اور حق بات کو بدل کر پیش کرنا۔ سچ کو بدل اتنی شدت سے پیش کیا جاتا ہے کہ سننے یا پڑھنے والا یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہی سچ ہے حالانکہ حقیقت مختلف ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ سچ اور حق بات جاننے سے محروم رہ جاتے ہیں جو کہ انتہائی غلط بات ہے۔ اس بارے میں ایک مثال یہ ہے کہ جب کلثوم نواز کینسر سے لڑ رہی تھی تو میڈیا پر سب جو سیاسی لحاظ سے نفرت کا شکار تھے وہ اس کو محض جھوٹ کا نام دے کر ماننے کو تیار ہی نہ تھے۔
کسی کی انفرادی زندگی میں مداخلت کرنا، چاہے وہ کوئی مجرم ہو یا حکمران ہو، ناقابل قبول ہے۔ صحافت اور صحافی اس بری عادت سے قطعاً محروم نہیں۔ صحافی حکمرانوں کی ذاتی زندگی میں ہاتھ ڈالتے ہیں اور اسے لوگوں کے سامنے لا کر رکھ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ شخص عوام کے سامنے شرمندہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ انتہائی غیر اخلاقی اور غیر ادبی حرکت ہے جو کہ بہ صد افسوس ہمارے ملک میں خاصی عام ہے۔
عمران خان اور جمائمہ خان کے معاملے سے تو ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔ دونوں کی ذاتی اور گھریلو زندگی پر میڈیا نے کیچڑ اچھالا اور انجام کیا ہوا۔ اسی طرح کئی مثالیں ہیں جس میں صحافی دوسرے لوگوں کی کردا کشی کرتے میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی ایک عام گنہگار انسان ہیں۔ نہ ہمارا مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے اور نہ قانون لیکن ان کو روکنے والا کوئی نہیں.
صحافت کی دنیا میں ان سب خامیوں کی کئی وجوہات سامنے آئی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ وہ میڈیا جو محض قانون کا رونا روتا ہے، اس کے لیے کوئی قانون نہیں۔ میڈیا آزاد ہے مکمل طور پر آزاد۔ میڈیا کو کوئی روکنے والا نہیں۔ اگر کوئی میڈیا کی پابندی کی بات کرتا ہے تو سب صحافی اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور پھر وہی گندی صحافت ، جھوٹ، سچ کا چھپانا وغیرہ۔ اگر کوئی حکومت میڈیا کی آزادی ختم کرتی ہے تو احتجاج، حکومت کے خلاف جھوٹے ثبوت اور الزام تراشی وغیرہ جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ میڈیا آزادی کی حق مانگا جاتا ہے۔ حالانکہ جو میڈیا صرف اپنی مانگ بڑھانے کے لیے جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتا ہے اس کی آزادی چھینا ایک قانونی فعل ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس سب غیر اخلاقی صحافت کے پیچھے کھڑے ہیں وہ ہی تو اصل قانون کے لوگ ہیں۔ اور وہ نہیں چاہتے کہ یہ میڈیا کی آزادی ختم ہو کیونکہ ان کے پاس ایک اچھا پلیٹ فارم ہے جس کو وہ اپنے مفاد میں استعمال کر سکتے ہیں۔
صحافت کے گرتے معیار کی ایک اور سنگین وجہ ریٹنگ ہے۔ ایک نیوز چینل کے مالک کو ریٹنگ کے علاؤہ کچھ نہیں چاہیے ہوتا۔ یہی حال صحافیوں کا ہے۔ جتنی ریٹنگ زیادہ ہو گی اتنا ہی پیسہ زیادہ ہوگا۔ ریٹنگ حاصل کرنے کی لیے میڈیا کو کوئی خبر بھی ملے،چاہے بیان کرنے والی ہو یا نہ ہو، وہ چلا دیتے ہیں۔ عوام میں سنسنی سی پیدا کیے رکھتے ہیں تا کہ ریٹنگ اوپر ہی چڑھی رہے۔
اس سب کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ میڈیا کو قانون کی گرفت میں رکھے۔ میڈیا کے خلاف بل پاس کرایا جائے۔ جب تک یہ میڈیا آزاد رہے گا عوام میں کشمکش سی برپا رہے گی۔ نہ کسی کو سچ کا علم ہو گا نہ جھوٹ پکڑا جا سکے گا۔ لیکن عوام بھی یہ بات نہیں سمجھتے اور آنکھیں بند کر کے میڈیا کے پیچھے چلتے ہیں۔
ہم خواہ مخواہ میڈیا کا یقین کرتے ہیں اس سے بچنا ہو گا۔ کچھ لوگ سارا دن خبریں دیکھتے رہتے ہیں اور اپنے دماغ میں الٹے سیدھے نتائج بناتے رہتے ہیں۔ اور جو خبر عام ہو اس کو بار بار سنتے چلے جاتے ہیں جس سے میڈیا کی ریٹنگ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ عام عوام ہر صحافی کی بات کا یقین کر لیتے ہیں۔ جب تک ہم کسی بات کی بابت تحقیق نہ کر لیں اس کو آگے نہ پہنچائیں۔ اللہ ہمارے ملک کو بری صحافت اور سیاست سے بچائے اور ملک کو محفوظ رکھے۔ آمین!