پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے۔ پاکستان ہاکی ٹیم 1948 سے پاکستان کی نمائندگی بین الاقوامی سطح پر کر رہی ہے۔ اس ٹیم کو پاکستان ہاکی فیڈریشن ادارہ چلاتا ہے۔ پاکستان ہاکی ٹیم 1948 سے بین الاقوامی ہاکی فیڈریشن اور 1958 سے ایشیائی ہاکی فیڈریشن کا حصہ ہے۔ پاکستان ہاکی ٹیم دنیا کی وہ واحد ٹیم ثابت ہوئی ہے جس نے لگاتار چار بین الاقوامی مقابلے جیتے۔
ایک دور تھا کہ پاکستان ہاکی ٹیم دنیا کی کامیاب ترین ہاکی ٹیم ہوا کرتی تھی۔ پاکستان میں ہاکی کے کھلاڑی دنیا کے بہترین کھلاڑی ہوا کرتے تھے۔ جن میں سہیل عباس، وسیم احمد، شکیل عباسی، محمد عمران، ریحان بٹ، حسن سردار، شہباز احمد، منظور حسین عاطف، کامران اشرف، سمی اللہ خان، منصور احمد، حنیف خان جیسے مایہ ناز کھلاڑی شام تھے، جنھوں نے دنیائے ہاکی میں اپنا لوہا منوایا۔ یہ کھلاڑی ہاکی کی جان سمجھے جاتے تھے۔ شہباز احمد کو "میراڈونا آف ہاکی” کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ایک سال بعد 1948 میں، مالی اور سیاسی حالات سخت خراب ہونے کے باوجود، پاکستان ہاکی ٹیم نے نمو پایا اور اسی سال لندن میں ہونے والے اولمپکس کھیلوں کے مقابلے میں حصہ لیا اور بیلجیم جیسی اچھی ٹیم کو 1-2 سے شکست دے کر ہاکی کی دنیا میں اپنا نام منظور کروایا۔ یہ ایک آغاز تھا جس کے بعد پے در پے فتوحات پاکستان ہاکی ٹیم کا مقدر ٹھہریں۔ اسی دورے پر پاکستان نے بیلجئیم کے بعد، نیدرلینڈز ڈنمارک اور فرانس کی ہاکی ٹیموں کو شکست دے کر مقابلے میں جگہ بنائی۔
اولمپکس کے بعد پاکستان ہاکی ٹیم یورپ کے دورے پر گئی جہاں انھوں نے ایک بار پھر بیلجئیم، نیدر لینڈ اور اٹلی کو شکست دی، اور ناقابل شکست رہے۔ پھر دو سال کے بعد سپین میں ہونے والے مقابلے میں پاکستان نے حصہ لیا۔ پاکستان مقابلے کے آخری میچ تک فتحیاب رہا اور آخری میچ نیدرلینڈ کے ساتھ کھیلا مگر مقابلہ برابر رہا۔ یہ پاکستان کی پہلی بین الاقوامی فتح تھی۔
1952 میں منعقد ہونے والے اولمپکس کے مقابلے میں، پاکستان ہاکی ٹیم نے حصہ لیا اور پہلا میچ جیت گیا مگر اگلے دو میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگلے چار سال میں پاکستان ہاکی ٹیم گاہے بہ گاہے یورپ کے دورے کرتی رہی اور دیگر ٹیمیں بھی ہاکی کے مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے پاکستان آتی رہیں۔ پاکستان دیگر ایشیائی ممالک جیسے ملائیشیا اور سنگاپور کے دورے پر بھی جاتا رہا۔
1956 میں میلبرن کے مقام پر ہاکی کے مقابلوں میں پاکستان ہاکی ٹیم نے حصہ لیا مگر پاکستان فائنل میچ میں بھارت سے 0-1 ہارا اور سلور میڈل حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ پاکستان کا پہلا اولمپک میڈل تھا۔
ایشیائی کھیلوں کے مقابلوں میں ہاکی نہیں ہوا کرتی تھی مگر ایشیا کے لوگوں میں ہاکی کی لیے بڑھتی دلچسپی کے پیش نظر 1958 میں ہاکی کے مقابلوں کو بھی شامل کیا گیا جس میں پاکستان نے دلجمعی سے حصہ لیا۔ اس مقابلے میں پاکستان نے جاپان، جنوبی کوریا اور ملائیشیا کو شکست دی اور فائنل میچ میں بھارت سے مقابلہ برابر کیا۔ فہرست میں اول ہونے کی وجہ سے گولڈ میڈل کا حقدار پاکستان کو قرار دیا گیا۔ یہ پاکستان ہاکی ٹیم کے لیے پہلا گولڈ میڈل تھا۔
1960 میں روم میں اولمپکس کے مقابلے میں پاکستان ہاکی ٹیم نے آغاز ہی میں آسٹریلیا، پولینڈ اور جاپان کو شکست دی اور کوارٹر فائنل میں جگہ بنائی جس میں جرمنی کو شکست دے کر سیمی فائنل میں جگہ بنا لی۔ سیمی فائنل میں سپین سے مقابلہ ہوا اور پاکستان ایک بار پھر فتحیاب ہوا۔ اب فائنل بھارت سے ہونا تھا۔ جس میں نصیر بندا نے ایک گول کیا جس کی وجہ سے پاکستان بھارت کو شکست دینے میں کامیاب ہوا اور گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔
1960 میں ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں پاکستان ہاکی ٹیم نے چودھری غلام رسول کی کپتانی میں دوسرا گولڈ میڈل جیتا۔ 1964 میں ٹوکیو اولمپکس اور 1966 میں ایشیائی کھیلوں کے مقابلوں میں پاکستان کو فائنل میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر پاکستان نے اپنا دوسرا اولمپکس کا گولڈ میڈل 1968 میں میکسیکو میں ہونے والے اولمپکس کے مقابلے میں جیتا۔ اس ٹیم کو ہاکی کی تاریخ کی بہترین ٹیم شمار کیا جاتا ہے۔ اس ٹیم کی کپتانی طارق عزیز کر رہے تھے۔ چوتھے منعقد ہونے والے اولمپکس کے مقابلے میں ایک بار پھر پاکستان نے فائنل میچ میں آسٹریلیا کو 1-2 شکست دے کر گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔ دو گول میں سے ایک گول محمد اس ملک نے اور ایک گول عبد الراشد نے کیا۔
1970 سے 1984 تک کا دور پاکستان کی ہاکی کی تاریخ کا سنہری دور مانا جاتا ہے۔ 1970 میں ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں، جو کہ تھائی لینڈ میں منعقد ہو رہا تھا، پاکستان نے جاپان کو 3 گول کی برتری کے ساتھ شکست دی۔ جس کے بعد ہونگ کونگ کو 0-10 سے ہرا کر سر فہرست پر جگہ بنائی۔ اس کے بعد تھائی لینڈ کے ساتھ میچ برابر کیا۔ پھر ملائیشیا کو 0-5 سے شکست دی۔ آخری میچ میں۔ پاکستان کا مقابلہ بھارت سے ہوا جس میں پاکستان نے بھارت کو 0-1 سے شکست دے کر تیسرا ایشیائی کھیلوں کے مقابلوں کا گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔
1971 میں سب سے پہلا ہاکی کا ورلڈ کپ کھیلا جانا تھا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ ورلڈ کپ پاکستان میں منعقد کروایا جائے۔1971 میں پاکستان کی سیاسی صورتحال خاصی خراب تھی۔ اور ابھی چھ سال ہی ہوئی تھے پاکستان اور بھارت کی جنگ ہوئے۔ جب پاکستان نے بھارت کو اپنے میدان میں آ کر کھیلنے کی دعوت دی تو عبد الحفیظ کردار، جو کہ کرکٹر تھے، کی راہنمائی میں پاکستانیوں نے بھارت کی ورلڈ کپ میں شرکت کے خلاف احتجاج کیا۔ اس سب خراب صورتحال کے باعث بین الاقوامی ہاکی فیڈریشن کے عہدیداران نے فیصلہ کیا کہ ورلڈ کپ پاکستان کی بجائے کسی اور ملک کی سر زمین پر کروایا جائے۔
1971 مارچ میں بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہو گیا۔ اس سب کے پیش نظر ورلڈ کپ کو پاکستان کی بجائے بارسلونا میں منعقد کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 10 ٹیموں نے ورلڈ کپ کے مقابلے میں شمولیت اختیار کی۔ ان ٹیموں کو دو گروہوں میں بانٹ دیا گیا۔ پاکستان کو جس گروہ میں رکھا گیا اس میں پاکستان کے علاوہ سپین، آسٹریلیا، جاپان، نیدرلینڈ بھی شامل تھے۔ پاکستان متعدد ٹیموں کو شکست دے کر گروہ میں دوسرے نمبر پر رہا۔ جس کے بعد پاکستان کو سیمی فائنل میں بھارت کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان نے ایک بار پھر بھارت کو 1-2 سے شکست دی۔
دوسرے گرہ میں سے سپین اور کینیا اور کا سیمی فائنل ہوا جس میں سپین نے کینیا کو شکست دے کر فائنل میں جگہ بنائی۔ فائنل پاکستان اور سپین کا ہوا جس میں پاکستان نے سپین کے خلاف آغاز ہی میں ایک گول کر دیا۔ باقی میچ پاکستان نے اپنا دفاع مضبوط رکھتے ہوتے 0-1 سے سپین کو شکست دی اور پہلا ہاکی کا ورلڈ کپ اپنے نام کیا اور دنیا کی باقی ٹیموں کے مقابلے میں پہلا نمبر حاصل کیا۔
1972 کے اولمپکس میں پاکستان فائنل میچ تک پہنچا اور جرمنی سے 0-1 سے ہارا۔ 1973 میں ایک بار پھر ورلڈ کپ کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان ہاکی ٹیم ورلڈ کپ نہ جیت سکی مگر خاصی کامیاب رہی۔ 1974 میں ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں فائنل اپنے نام کیا مگر 1975 میں تیسرے ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچ جانے کے بعد بھارت سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1976 میں پاکستان نے اولمپکس میں برونز میڈل حاصل کیا۔
1978 پاکستان ہاکی ٹیم کے لیے ایک بہترین سال ثابت ہوا۔ پاکستان نے ایک ہی سال کے اندر اندر تین بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں فتح اپنے نام لکھوائی۔ جن میں ورلڈ کپ کا مقابلہ، ایشیائی کھیلوں کا مقابلہ اور پہلی بار ہونے والی چیمپئنز ٹرافی شامل ہیں۔ یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ تھا کہ کوئی قومی ٹیم ایک سال میں تین بین الاقوامی مقابلے جیت پائی ہو۔ 1980 اور 1981 کے چیمپئنز ٹرافی کے مقابلے پاکستان کی سرزمین پر منعقد ہوئے۔ 1980 کے مقابلے میں ہم نے جرمنی کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔ جبکہ 1981 میں فہرست میں چوتھے نمبر پر رہے۔
1980 کی دہائی میں پاکستان نے جس بین الاقوامی مقابلے میں حصہ کیا اس میں فتح حاصل کی۔ 1982 کا ممبئی میں ہونے والا ورلڈ کپ جیتا۔ 1984 میں ہونے والے اولمپکس میں جرمنی کو ہرایا۔ اس کے علاؤہ ایشیائی کھیلوں کا مقابلہ اور ایشیا کپ اپنے نام کیے۔
1986 میں بین الاقوامی ہاکی فیڈریشن نے زمینی خصوصیات کو، جن پر ہاکی کھیلی جاتی تھی، یکسر بدل ڈالا۔ اس سے پہلے ہاکی قدرتی گھاس پر کھیلی جاتی تھی مگر اب اسے مصنوعی گھاس سے بدل دیا گیا۔ اس کا ہاکی کے کھیل پر یہ اثر ہوا کہ ہاکی کا کھیل قدرے تیز ہو گیا۔ یہ بات ایشیا کے کھلاڑیوں کے لیے بالکل موزوں ثابت نہ ہو سکی کیوں کہ وہ قدرتی گھاس پر کھیلنے کے عادی تھے۔
سو اس سانحے نے پاکستان کے کھلاڑیوں کو بھی اسی طرح اثر انداز کیا جس طرح ایشیا کے باقی ممالک میں ہاکی کے ماہرین کو۔ اس کی وجہ سے اگلے ورلڈ کپ میں پاکستان محظ ایک میچ میں فتح یاب ہو سکا اور باقی میچ بری طرح ہار گیا۔ مگر کچھ ہی عرصے میں پاکستان نے نئی سطحوں کو جاننا شروع کیا اور اس پر اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان ہاکی ٹیم 1990 میں ہونے والے ورلڈ کپ میں فائنل تک پہنچ گئی۔ مگر نیدر لینڈ سے ہار گئی۔
1992 میں بارسلونا کے مقام پر ہونے والے اولمپکس میں پاکستان ہاکی ٹیم فقط برونز میڈل ہی جیت سکی۔ 1994 میں پاکستان نے فتوحات میں واپسی کی اور چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل اپنے نام کیا، جو کہ پاکستان میں منعقد ہو رہی تھی۔ یہ 14 سال کے بعد پاکستان کی پہلی بڑی فتح ثابت ہوئی۔ اور اسی سال پاکستان ہاکی ٹیم نے سڈنی میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ میں نیدر لینڈ کو ہرا دیا۔
1998 کے ورلڈ کپ میں پاکستان فہرست میں پانچویں نمبر پر رہا اور 2000 کے اولمپکس میں چوتھے نمبر پر ٹھہرا جو کہ سڈنی میں ہو رہا تھا۔ یہ پاکستان ہاکی ٹیم کی پستی کا آغاز تھا۔ جس کے بعد 2002 میں ورلڈ کپ میں پاکستان ہاکی ٹیم پانچویں نمبر پر رہی اور اسی سال منعقد ہونے والے ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں پاکستان چوتھے نمبر پر رہا۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ پاکستان ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں کوئی تمغہ بھی اپنے نام نہ کر سکا۔
2003 میں فائنل تک تو پہنچا مگر شکست خوردہ رہا۔ 2004 ایک مصروف سال ثابت ہوا۔ اولمپکس میں پانچویں نمبر پر رہے جبکہ چیمپئنز ٹرافی میں، جو کہ لاہور میں منعقد ہو رہی تھی، تیسرے نمبر پر رہے اور برونز میڈل جیتا۔ 2006 کے ورلڈ کپ میں پاکستان ہاکی ٹیم چھٹے نمبر پر رہی۔
2008 کے بیجنگ کے اولمپکس مقابلے میں پاکستان کی بد ترین کارکردگی رہی اور آٹھویں نمبر پر آ گئے۔ نئی دہلی میں ہونے والے 2010 کے ورلڈ کپ پاکستان بارھویں نمبر پر رہا۔ مگر اسی سال کے آخر پر ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں پاکستان نے گولڈ میڈل جیتا۔ 2012 کے اولمپکس میں پاکستان ساتویں نمبر پر رہا۔ مگر 2012 ہی میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی میں برونز حاصل کیا۔
اس بری تنزلی کے دورانیے میں گو پاکستان ٹیم کو بری شکست ہوئی ہوتی رہی مگر پاکستان ہاکی ٹیم نے ایسے کھلاڑی پیدا کیے جنھوں نے دنیا میں اپنا نام بنایا۔ سہیل عباس ان کھلاڑیوں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے کل زندگی میں 348 گول کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ان کے علاؤہ ریحان بٹ، شکیل عباسی، سلمان اکبر، محمد ثقلین وغیرہ شامل ہیں۔
2014 میں ورلڈ کپ میں شمولیت کا براہ راست موقع نہ مل سکا جس پر ایک موقع تھا کہ اگر 2013 میں پاکستان ایشیا کپ جیت جاتے تو شاید بات بن جاتی۔ مگر پاکستان اس مقابلے میں بھی جیت نہ سکا اور تیسرے نمبر پر رہا اور ورلڈ کپ سے باہر کر دیا گیا۔ 2016 میں اولمپکس میں بھی شرکت نہ کر سکا۔ 2016 اور 2017 میں پاکستان نے بری کار کردگی کا مظاہرہ کیا۔ 2018 کے ورلڈ کپ میں ایک بھی میچ جیت نہ سکے۔ 2020 میں اولمپکس میں حصہ لینے کے اہل نہ ٹھہرے۔ 2019 سے اب تک ہاکی ٹیم کوئی بین الاقوامی میچ نہ کھیل سکی۔ حال ہی میں 2021 میں ہونے والے ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شمولیت ممکن ہو سکی تھی۔
جیسا کہ میں نے بتایا کہ پاکستان کی ہاکی کی ٹیم دنیا کی اول درجے کی ٹیم رہ چکی ہے مگر آج یہ حال ہے کہ کوئی بین الاقوامی مقابلہ کھیلنے کی اہل تک نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں حکومتی عدم توجہی بھی شامل ہے اور کھلاڑیوں کی غیر تکنیکی صلاحیتیں اور غیر سنجیدہ رویہ بھی۔ پاکستان ہاکی ٹیم کو مالی وسائل کے خاصے فقداں کا سامنا ہے جس کے باعث ان کا اچھی کارکردگی دکھانا قدرے نا ممکن ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی لوگ اب ہاکی دیکھنا پسند نہیں کرتے بلکہ اس کی بجائے فٹ بال یا کرکٹ کو فوقیت دیتے ہیں۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے جس کو فروغ دینا پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے۔ امید کرتا ہوں ایک بار پھر ہماری ٹیم ان مسائل سے نکل کر دنیا کی نمبر ون ٹیم بنے گی۔ آمین۔