عمران احمد خان نیازی کوشش اور مسلسل کوشش کا شاید دوسرا نام ہے۔ آج 5 اکتوبر2020 کو زندگی کی 68 بہاریں دیکھ چکنے والے عمران خان کی زندگی میں اصل میں کتنی بہاریں ہیں یہ شاید صرف وہی بتا سکیں۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کیوں کہ میں نے اپنی 30 سالہ زندگی میں عمران خان کو شاید ہی کبھی سکھ اور سکون کے ساتھ بیٹھے دیکھا ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر آپ کسی عام شخص کی بات کریں تووہ زندگی میں کوئی مقصد متعین کرتا ہے اور پھر اس مقصد کے حصول کے لیے اپنا تن من دھن لگا دیتا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے بعد وہ چاہتا ہے کہ اب جب اس نے اپنا معین کردہ مقصد حاصل کر لیا ہے تو اب باقی زندگی آرام سے رہنا اس کا حق ہے۔ اور یہ بات کسی حد تک میرے اور آپ جیسے عام انسان کے لئے صادق آتی ہے۔ لیکن عمران خان اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ان کی زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ وہ اپنا ایک مقصد معین کرتے ہیں اسے حاصل کرتے ہیں اور حاصل کر لینے کے بعد نئے سرے سے ایک اور مقصد معین کرتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگ جاتے ہیں۔
اب چاہے وہ مقصد فاسٹ بالر بننا ہو یا پھر شوکت خانم کا جیسا کینسر ہسپتال بنانا ہو یا پھر نمل جیسی یونیورسٹی بنانی ہو یا پھر پاکستان کا مستقبل بدلنے کے لئے وزیراعظم بننا ہو، عمران خان اپنے لئے ایک کے بعد ایک نیا مقصد معین کرتے ہیں اور ایک نئے سرے سے ایک نئی جہت کا آغاز کرتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے جاتے ہیں۔ ایک اور بات بھی شاید صرف عمران خان کے لئے ہی صادق آتی ہے اور وہ یہ کہ ہر نئے مقصد پر ان کو ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ ایسا کرنا آپ کے لئے ناممکن ہے، اس وقت تک جب تک وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو جاتے۔ عمران خان کی یہی ضد یا ان کا اپنی بات پر اڑ جانا اور اپنے مقصد کے لیے مسلسل کوشش کرنا ہی شاید ان کی کامیابی کا راز ہے۔ اقبال نے اپنا یہ شعر شاید عمران خان کے لئے ہی لکھا ہو
تندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
عمران احمد خان نیازی نہ صرف پاکستان کے لیے عالمی کپ کے فاتح ہیں بلکہ وہ سیاستدان،انسان دوست شخص پاکستان کے وزیر اعظم اور اور پاکستان کی امید بھی ہیں۔ یہ بات اس لیے بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے کیونکہ اب پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر عمران خان کے علاوہ کوئی ایسی شخصیت موجود نہیں جو سب سے پہلے پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں سوچے۔ سیاستدان تو پاکستان میں بہت پائے جاتے ہیں لیکن رہنما کوئی بھی نہیں۔ حانہ پوری کرنے کے لیے موروثی سیاست دان، بڑے وڈیرے، جاگیردار، بھٹو دار، کم علم علماء اور کرپٹ بیوروکریٹ تو اس ملک میں بہت مل جائیں گے۔ ان سب کی کرپشن کا یہ حال ہے کہ حکومت میں رہنا اور حکومت بنانا ان کے لئے ضروری نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ کیونکہ یہی ایک واحد راستہ ہے ہے جس کے ذریعہ سے وہ سب لوگ اپنے آپ کو نہ صرف احتساب سے بچا سکتے ہیں بلکہ لوٹ مار کے اور مواقع مہیا کر سکتے ہیں۔
ایسے حالات میں اپوزیشن اور اپوزیشن سے باہر ایسے تمام سیاستدانوں کو ایک پڑھا لکھا شخص جو کرپشن نہیں کرتا اقتدار میں کیسے پسند ہو سکتا ہے۔ ایسا ہی شخص عمران خان ہے جو کہ اس وقت پاکستان کا وزیراعظم ہے۔ ایسے شخص کی موجودگی میں ایک طرف جہاں کرپشن کے مواقع کم ہیں وہیں دوسری طرف احتساب کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔
اپنی جوانی میں ہی کرکٹ میں اپنے ہنر اور اپنی وجاہت کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے عمران خان ان اپنی زندگی میں شہرت،عزت اور دولت کی بہتات دیکھ چکے ہیں۔ اور میرے خیال میں یہی وجہ ہے کہ جہاں باقی سیاستدان دولت کے چکر میں کرپشن کرتے ہیں وہیں پر عمران خان کے لیے دولت کی کشش کچھ زیادہ نہیں۔
اپنی جوانی میں پلے بوائے کے طور پر مشہور رہنے والے عمران خان کی زندگی میں بہت سارے اتارچڑھاؤ ہیں۔ مغربی معاشرے میں رہ چکے کے ان کے طور طریقے دیکھ چکے کے ان کی ثقافت کا معائنہ کر چکے اور ان کے باہمی سماجی روابط کو قریب سے دیکھنے کے بعد عمران خان بھی اس معاشرے سے بیزار نظر آتے ہیں۔ اور دوسری طرف انتہا یہ ہے ہے کہ ہمارے معاشرے کا عام نوجوان ان مغربی معاشرے میں جا کر رہنا چاہتا ہے۔ اس کی ایک جائز وجہ تو ہمارے معاشرے میں دہائیوں سے موجود عدم استحکام سمجھ آتی ہے۔ لیکن ثقافتوں کے اس ٹکراؤ میں میں ہمارے نوجوانوں کے ذہن میں یہ خام خیالی کا پایا جانا کے مغربی معاشرہ کوئی انتہائی اعلیٰ و ارفع تہذیب کا نام ہے سمجھ سے باہر ہے۔ اقبال کا وہ شعر اس بات کی مکمل طور پر غمازی کرتا ہے کہ
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
زندگی کے ایک نئے اور انوکھے موڑ میں ایک وقت کا پلے بوائے دوسرے وقت میں میں صوفی ازم کی طرف جھکتا نظر آتا ہے۔ حیران کن ہے کہ مادیت پرست مغربی معاشرے کو اتنی اچھی طرح جانتے اس میں رچ بس جانے کے بعد ایاک نعبد ایاک نستعین کی صدا لگانے والے عمران خان اسلام اور ریاست مدینہ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ حیران کن اس لئے نہیں کے ایسا ہونا نا ممکنات میں سے ہے یہ تو اللہ کی دین ہے جسے بھی عطا کر دے۔ حیران کن اس لئے کے پاکستان میں مغربی تہذیب کے علم برداروں کے لیے یہ سمجھنا کتنا مشکل کام ہے؟
یہ تصویر وکی پیڈیا سے لی گئی ہے۔ لنک