تعلیم در اصل وہ معلومات ہیں جس کے ذریعے علم نسل در نسل منتقل ہوتا ہےجبکہ سائنس لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے علم حاصل کرنا۔سائنس علم کا وہ ذخیرہ ہے جو تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر مختلف کسوٹیوں سے گزر کر حاصل کیا جاتا ہے ۔
تعلیم اور سائنس ایک کامیاب معاشرے کی کامیابی کا بنیادی عنصر ہے اورموجودہ دور کی اوّلین ضرورت ہےترقی یافتہ ملکوں کی ترقی کا راز اُن کے معیار تعلیم میں جدید سائنسی ریسرج کا شامل ہونا اور بچوں کو اس کے مطابق آگاہی دینا ہے دنیا بھر میں جدید ریسرج کو نصاب میں شامل کر کے نئی نسل کو زمانے کے ساتھ ساتھ چلایا جاتا ہے جبکہ بد قسمتی سے ہمارے یہاں اب تک پرانے نصاب پر نظر ثانی کرنے کے بجائے اُسی نصاب کو پڑھایا جاتا ہے نتیجتاً ہمارے بچّے نئی سائنسی ریسرچ اور معلومات سے کوسوں دور رہ جاتے ہیں۔
سائنس کا علم غورو فکر کا علم ہے اور قرآن پاک میں بھی بار بار انسانوں کو غور و فکر کرنے کا کہا گیا ہے اسلام نے عقل اور غور و فکر کو ایک بلند مقام سے نوازا ہے اور اسے اہل عقل و دانش کا کام قرار دیا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں
أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ مَا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُسَمًّى وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ
ترجمہ: کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا؟ اللہ نے آسمانوں ، زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کو کسی حقیقی مصلحت اور ایک مقررہ وقت تک کے لئے پیدا کیا ہے۔ مگر لوگوں میں سے اکثر اپنے پروردگار کی ملاقات سے منکر ہیں۔ (الروم: آیت ۸)
اگر ہم اقبالیات پڑھیں تو ہمیں ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کی شاعری کے ذریعے بھی یہی پیغام ملتا ہے
زندگی کچھ اور شے ہے،علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوزِ جگر ہے علم ہے سوزِ دماغ
اگر موجودہ دور کو سائنسی دور کہا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔سائنس کا علم ہمیں قدرت کے حسین شاہکاروں اور چھپے رازوں سے آگاہ کرتا ہے اسی علم کی بدولت ہم کائنات کے مختلف رازوں کو سمجھ پائے ہیں جیسے سیاروں کی گردش،سورج جا طلوع اور غروب ہونا،بادلوں کا بننا اور بارش کا برسنا وغیرہ۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تاریخ میں ہمیں بہت سے مسلمان سائنسدانوں کے نام ان کی خدمات کی وجہ سے نمایا ں نظر آتے ہیں جن میں موسیٰ الخوارزمی، ابنِ سینا،عمر خیام،البیرونی قابلِ ذکر ہیں
یہاں ایک اور بات توجہ طلب ہے اور وہ یہ کہ عموماً دینی اور دنیاوی تعلیم کو الگ الگ مانا جاتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے
اگر ہم غور کریں تو ہمارا دین ہی ہمیں سائنسی علم یعنی غورو فکر کا درس دیتا ہے اور قرآن اس بار کی کئی بار گواہی دے چکا ہے کی زمین میں موجود چیزوں پر غور کرو۔ اور قرآن پاک اور سائنس پر کئی سائندانوں نے ریسرچ بھی کی جو کہ ان سائنسدانوں کے لئے انتہائی حیرت انگیز رہی اور مثبت نتائج سامنے لائی ،اور ان چیزوں کا جسے دنیا آج ریسرچ اور تجربات سے معلوم کر رہی ہےقرآن پاک نے آج سے ۱۵۰۰ سال پہلے ہی ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کے ذریعے ہم تک پہنچا دی تھیں۔