کوئی چیز کیسے ایجاد ہوتی ہے؟
انسا ن کی پہلی سائنسی ایجا کیا ہے؟
ایجادات کا طبی دنیا میں انقلاب!
سائنسی آسائشات کے نقصانات:
خدا تمام جہانوں کا خالق و مالک اور معبود ہے ۔ اس نے انسان کو اس دنیا میں اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر بھیجا ہے اور اسے اتنی فہم وذکا سے نوازا کہ وہ اپنے روز مرہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختلف ایجادات کر سکے . قرآن پاک میں کائنات کو مسخر کر نے اور اس پر تدبر و تفکر کرنے پر زور دیا گیا ہے۔انسان نے اب تک ترقی کے جو آسان فتح کئے ہیں ، سب سائنس کا کر شمہ ہے ۔
خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔انسان کو اللہ تعالی نے لا تعداد ذہنی خوبیاں بخشی ہیں۔انسان نے اپنی ذہنی خوبیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے چھوٹی بڑی ایجادات کے ذریعے اس دنیا کو طلسماتی دنیامیں بدل دیا ہے ۔ پرانے زمانے کا انسان دوبارہ اس دنیا میں آ کر دیکھ لیں کہ "انسان ہواؤں میں اڑ رہا ہے ، سمندروں کا سینہ چاک کر رہا ہے اور زمین سے معدنیات کے خزینے نکال رہا ہے تو تھوڑی دیر اس کی عقل ماؤف ہو جائے گی ۔ انسان چاند کو تسخیر کر چکا ہے ، اب وہ مریخ اور دیگر سیاروں تک پہنچنے کا آرزو مند ہے” ۔ پُرانے زمانے کے لوگ ایکسلیٹرز اور لفٹ جیسی حیرت انگیز چیزیں دیکھ کے دنگ رہ جائیں گے۔
قدیم زمانے میں انسان کا ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنا مشکل تھا ۔ کو کاف کے سفر یعنی سمندروں اور پہاڑوں کو عبور کرنے کا ذکر شہزادوں کی کہانیوں ہی میں ملتا تھا ۔ گھوڑوں اور اونٹوں پر بھی سفر کیے جاتے تھے ۔ لیکن یہ سفر سر دی ، گرمی اور جنگلی درندوں سے بچنے کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے تھے۔
انسان کی پہلی سائنسی ایجاد پہیہ سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے یہ بات تو سُنی ہو گی کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے اور وہ کام اس کے زور بازو سے نہیں ہوتا تو انسان اس کام کو کرنے کے لئے ایسے مختلف طریقے سوچتا ہے جس سے وہ کام آسانی سے ہو جائے۔ پہیے کی ایجاد بھی کچھ اس طرح سے ہوئی۔
انسان کی پہلی سائنسی ایجاد:
کہا جاتا ہے کہ ایک بار ایک شکاری جنگل میں شکار کی غرض سے گیا۔ شکار کرتے کرتے ایک بہت بڑا بیل اس کے تیر سے زخمی ہو گیا۔ شکاری نے بیل کو ذبح تو کر لیا، لیکن اتنے بڑے بیل کا اکیلے اٹھانا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔وہ تھوڑی دیر بیٹھ کر سوچتا رہا کہ اب اس بیل کا کیا کیا جائے۔ دوپہر ہو رہی تھی، اگر وہ مزید دیر کرتا تو شام ہوتے ہی جنگل کے خونخوار جانور آ جاتے اور بیل کے ساتھ ساتھ شکاری کو بھی کھا جاتے۔ شکاری کے پاس اب دو راستے بچے تھے، یا تو وہ بیل کو چھوڑ کر گھر کی طرف جاتا، یا پھر بیل کو اٹھا کے گھر لے جاتا۔۔۔ پہلا راستہ آسان تھا لیکن اس چیز کو کرنے کا اس کا دل نہیں کر رہا تھا۔ وہ جو چیز کرنا چاہتا تھا، وہ بہت ہی مشکل تھی۔ شکاری نے سوچا کہ بیل کو اٹھانے کی کوئی نہ کوئی ترکیب سوچی جائے۔ اچانک اس کی نظر جنگل میں کٹے ہوئے دو درختوں پر گئی۔ ان درختوں کے تنے کافی موٹے اور گول گول تھے۔ شکاری نے دوسری طرف دیکھا تو لکڑی کے پھٹے بھی پڑےہوئے تھے۔ اس نے اُن پھٹوں کو گول تنوں پر لگایا۔ اب یہ ایک ریڑھی کی طرح بن گیا۔ شکاری نے بیل کو کاٹ کر اس پر لادا اور گھر لے آیا۔ اس طرح پہیہ کی ایجاد ہوئی۔
انسان نے اپنی عقل سے پہیہ اور ریل گاڑی انجن تیار کر لیا ۔ وہ سفر جو برسوں اور مہینوں میں ہوتا تھا اور جس طرح انسان امراض اور اموات کو دعوت دےکر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو تا تھا ، وہی سفر گھنٹوں میں اور حفاظت سے ہونے لگا ہے۔ ریل گاڑی نے انسان کا قیمتی وقت بچایا اور اسے سفر کرتے ہوئے یوں محسوس ہوا جیسے وہ اپنے گھر کے کسی ، کمرے میں بیٹھا ہو ۔
سائنسی ایجادات میں کار بھی بڑی زبر دست ایجاد ہے ۔ ریل گاڑی تو مخصوص مقامات تک پہنچ سکتی ہے اور ہر جگہ لائن بچھانا بھی ناممکن ہے۔اسی ضرورت کے پیش نظر کار ایجاد کر لی گئی ۔ جدید دور میں کار ہر گھر کی ضرورت بنتی جارہی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگر چہ ہر انسان کار خرید سکتا ہے لیکن وہاں ریل گاڑیوں اور بسوں کی اتنی زبر دست سہولت موجود ہے کہ لوگ ریل گاڑی کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں ۔
آج کے انسان نے ہواؤں اور سمندروں پر حکومت قائم کر لی ہے ۔ کسی زمانے میں قدرت حق سے حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت اڑا کر تا تھا ۔ شروع شروع میں انسان کو پرندوں کو دیکھ کر ہی ہوا میں اڑنے کا شوق پیدا ہوا ہو گا ۔ بہر حال اس نے اپنی عقل سے رہنمائی حاصل کی اور وہ ہوائی جہاز کی ایجاد کے ذریعے ہوا کے کندھوں پر سوار ہو گیا ۔ ہوائی جہاز کے ذریعے پوری دنیا کے فاصلے سمٹ کر رہ گئے ۔ اسی طرح بحری جہاز کی ایجاد بھی سائنس کا بہت بڑا کر شمہ ہے ۔ دور دراز کے ممالک سے جو خام مال مشینری اور دفاعی ساز و سامان درآمد کیا جاتا ہے ، وہ بحری جہازوں کے ذریعے ہی منگوایا جاتا ہے ۔اگر بحری جہاز ایجاد نہ کیا جاتا تو انسان کاروبار کے لحاظ سے حیرت انگیز ترقی نہیں کر سکتا تھا۔ ابوی دنیا ایک گلوبل ویلیج کار وپ دھار چکی ہے ۔
کبھی وہ زمانہ تھا کہ گھڑ سوار ایک جگہ سے دوسری جگہ پیغام لے جایا کرتے تھے اور پیغام پہنچنے کا پھر بھی یقین نہیں ہو تا تھا ۔ اب انسان کو ٹیلیفون ، ٹیلیگراف ، ٹیلیکس اور فیکس جیسی سہولیات میسر ہیں ۔ آپ کا پیغام ایک آن میں ہزاروں میل دور پہنچ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوریوں کی تمیز مٹ گئی ہے اور انسان دور رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے بہت قریب ہو گیا ہے ۔ اسی طرح ریڈیو اور ٹیلی وژن نے پوری دنیا کے فاصلوں کو ختم کر کے آپس میں جوڑ رکھا ہے ۔ بلکہ خبر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک فورا پہنچ جاتی ہے ۔
طبی دنیا میں انقلاب:
سائنسی ایجادات نے طبی دنیا میں ہلچل مچادی ہے ۔ ایکسرے ، الٹراساؤنڈ اور کمپیوٹر وغیرہ کی مدد سے بیماری کی تشخیص آسان ہو گئی ہے۔ادویات اور انجکشن وغیرہ تو قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔اب تو سر جری کے ذریعے انسانی اعضاء کی پیوند کاری کا دور شروع ہو چکا ہے۔ایک شخص دوسرے کو اور ایک کا دل اور گر دے دوسرے کو لگائے جارہے ہیں۔ سائنسی کر شمات نے بیماری کو مات دے دی ہے کیونکہ اندھوں کو بصارتیں مل رہیں ہیں ۔ بہروں کو ساعت نصیب ہو رہی ہیں اور لنگڑوں کو چلنے پھرنے کے قابل بنایا جا رہا ہے ۔
کسی زمانے میں سورج ہی روشنی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ تھا ۔ آج آپ دیکھیں کہ انسان نے دریاؤں اور سمندروں کے آگے بند باندھ دیے ہیں۔اور اس پانی کو بلندی سے گر اکر بجلی پیدا کر لی ہے ۔ بجلی ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے ۔ یہ گرمیوں میں ٹھنڈک اور سردیوں میں گرمی پہنچاتی ہے ۔ صرف ایک بٹن دہانے سے آپ کا گھر بقعہ نور بن جاتا ہے ۔ اسی طرح ایئر کنڈیشنز سے آپ کا گھر ٹھنڈا ہو جاتا ہے بلکہ بجلی نے آپ کے گھر کاہر کام آسان کر دیا ہے ۔
سائنسی آسائشات کے نقصانات:
سائنس نے جہاں انسان کو آسائش فراہم کی ہیں ، جس کی وجہ سے انسان کے لئے کچھ قباحتیں بھی پیدا ہو گئی ہیں۔مثال کے طور پر ہر ملک اسلحہ کی دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔ایک ملک دوسرے پر روعب ڈالنے کی خاطر ایٹم بم کا دھماکہ کر رہا ہے۔اب تو ہائیڈروجن بم اور اس سے بھی خطر ناک بم تیار کر لیے گئے ہیں۔آج کا انسان پہلی کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ اور مہذب ہے لیکن نفرت کی آڑ میں انسان دوسرے انسان کے لیے موت کا سامان کر رہا ہے۔اگر انسان ایک دوسرے سے محبت کرے اور ایک دوسرے کا احترام کرے تو بغیر ہتھیاروں کے بھی زندگی گزاری جاسکتی ہے ۔ سائنس کی ایجاد نے انسان کو اتنا مصروف بنادیا ہے کہ وہ بھی ایک مشین بن کر رہ گیا ہے ۔ سائنسی ایجادات نے جہاں انسان کو سہولت فراہم کی ہیں وہاں اسکا سُکھ چین بر باد کر دیا ہے ۔ فیکٹریوں کے دھوئیں اور شور کی آلودگی انسانی صحت پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔ انسان تازہ ہوا اور خوراک سے دور ہوتا جارہا ہے ۔ بھاگ دوڑ اور افرا تفری کے نتیجے میں مادہ پرستی کی طرف بھی مائل ہو گیا ہے ۔
سائنس نے جہاں انسان کو چاند تک پہنچایا اور خلا کو مسخر کرنے کا ذریعہ بنی ہے وہیں انسان کے لیے تباہی اور ہلاکت کا سامان بھی لائی ۔ آج تباہی کے ایسے سامان ہو گئے ہیں جن سے پل بھر میں جیتی جاگتی آبادیاں راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہیں ۔ اعاظم بم ، بائیڈو جن بم ، اور میزائل انسانی زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں ۔ ایک فلاسفر کا قول ہے کہ اس دور کے کیمیا گروں نے ایسا مرکب تیار کر لیا ہے جس کی قلیل مقدار کرہ ارض کو پل بھر میں بھڑکتے شعلوں میں تبدیل کر سکتی ہے۔