پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اور باب اس وقت لکھا جا رہا ہے جب حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اطلاعاتی وزیر عطا اللہ تارڑ نے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے پی ٹی آئی پر سنگین الزامات عائد کیے، جن میں پرتشدد احتجاجات کی اکسانا اور خفیہ معلومات کا افشا شامل ہیں۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے جایا جائے گا، جہاں حکومت سابق وزیر اعظم عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف غداری کے مقدمات بھی دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
حکومتی اس اقدام پر سیاسی حلقوں میں شدید رد عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے کو آئین کے مطابق قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کا اپنا مینڈیٹ مشکوک ہے اور اس کا سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنا مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، اور جے یو آئی کے رہنماؤں نے بھی حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ فسطائیت کی مثال ہے اور سیاسی اختلاف کے باوجود کسی بھی جماعت پر پابندی لگانا جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔
انسانی حقوق کمیشن نے بھی پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام غیرآئینی ہے اور اس سے سیاسی افراتفری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ انسانی حقوق کمیشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس فیصلے کو فوری واپس لے۔
پی ٹی آئی کے رہنما سید ذوالفقار بخاری نے حکومت کے فیصلے کو مکمل طور پر بوکھلاہٹ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت عدلیہ کو دھونس دھمکی سے زیر کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب کابینہ کے ذریعے یہ اقدام اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کے تمام اقدامات غیر قانونی قرار دیے جا چکے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی صورتحال پہلے ہی بہت پیچیدہ ہے اور اس نئے اقدام سے مزید عدم استحکام کا خدشہ ہے۔ ملک میں موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوں کے درمیان افہام و تفہیم اور مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے مسائل حل کیے جا سکیں اور جمہوریت کی بقاء ممکن ہو۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی توانائی عوام کی خدمت میں صرف کرے اور سیاسی انتقام سے گریز کرے۔ پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کا اقدام ملک میں سیاسی افراتفری کو بڑھاوا دے گا اور جمہوریت پر ایک کاری ضرب ثابت ہوگا۔ عوامی نمائندوں کا فرض ہے کہ وہ معیشت اور عام آدمی کی مشکلات پر توجہ دیں اور سیاسی مسائل کو مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کریں۔