متعلقہ مضامین

مجموعہ مضامین

پاکستانی تاجر نے چینی بسنس مین سے بڑا فراڈ

کراچی: وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے کوآپریٹو...

تَخیُل کے لفظی معنی اور اسکا مطلب

اسم، مذکر، واحدخیال کرنا، خیال میں لانا، وہ خیال...

سربراہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی)  مولانا فضل الرحمان کا اہم بیان

سربراہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی)  مولانا فضل...

عمران خان کے بارے بڑی خوشخبری اچھی خبروں کا آغاز

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس ٹو میں...

24 نومبر کا احتجاج ملتوی؟

اسلام آباد: 24 نومبر کے احتجاج کو لے کر...

حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے ہمارا فیس بک پیج لائک کریں۔

293,470پرستارلائک

مستقبل تعلیم سے ہی ہے-

علم سیکھنے اور سکھانے کا عمل صدیوں سے جاری ہے،علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پرفرض ہے علم ایک ایسا خزانہ ہے جسے آپ جتنا  زیادہ خرچ کرو گے ا س میں اتنا زیادہ اضافہ ہو گا۔ تعلیم کے بغیر زندگی بسر کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہوچکا ہے۔ 

اگر ہم تعلیم کی بات کریں تو گزشتہ سال وفاقی حکومت نے تعلیم کی شرح خواندگی کے حوالے سے 10 سالہ رپورٹ جاری کی تھی۔ جس کے مطابق پاکستان خطے میں 9 ممالک میں سے صرف افغانستان سے بہتر ہے۔  رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں شرح خواندگی 52 فیصد ہے۔

پائیداری ترقی کے اہداف کے تحت پاکستان نے اقوام متحدہ سے وعدہ کیا ہے کہ 2030 تک اپنے ہر بچے کو لازمی بنیاد پر معیاری پرائمری تعلیم فراہم کرے گا۔ لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ہے جس کہ وجہ سے ملک کے نوجوان طبقے کو تعلیم کی زیور سے آراستہ کرنا مشکل فیصلہ لگتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں لڑکیوں کی تعلیم کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے جس کہ وجہ سے پاکستان میں تعلیم کی شرح کمزور ہے۔ 

ملک کی ترقی کے لیے مرد و خواتین کو مل کر کام کرنا چاہیے تاہم پاکستان میں ذہنی پسماندگی  کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی اور لڑکیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اگر لڑکیوں کی تعلیم پر بھرپور انداز میں توجہ نہ دی گئی تو ملک میں شرح خواندگی پر برے اثرات مرتب ہونگے۔ 

دورجدید کی تقاضے کو دیکھ کر ملک پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے  شرح خواندگی میں تھوڑی کچھ صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ ماں کی گود سےلے کرقبر تک علم حاصل کرنا چاہیے۔ بچوں کی تربیت ماں کی گود سےشروع ہوتی ہے۔  

ماں کے صحبت کا  ا ثر  بچے پر ہوتا ہے۔ .جس معاشرے میں مائیں تعلیم یافتہ ہو تو اپنے بچوں کی تعلیمی پرورش اپنی ہی گود سے شروع کرتے ہیں۔ بچوں کو بھی سیکھنے میں آسانیاں پیدا ہوتے ہیں اور بچہ جلد سیکھ لیتا ہے۔ اس طرح ایک تعلیم یافتہ معاشرے کی وجود ہوتی ہے اور ملک ہو یا معاشرہ ، تعلیم کی شرح خواندگی میں اضافہ کرکے ترقی کرسکتا ہے۔

جدید زمانے کو مد نظر رکھتے ہوئے طالب علموں کو چاہیے کہ وہ روایتی شعبوں سے ہٹ کر ایسے شعبوں میں تعلیم حاصل کریں جن کی مستقبل میں مانگ اور روزگار کے مواقع زیادہ ہوں۔ ورلڈ اکنا مکس فورم کے مطابق آئندہ چار سے پانچ سال کے دوران مصنوعی ذہانت مشین لرننگ اور ڈیٹا میں مہارت رکھنے والے افراد کے لئے روزگار کے سب سے زیادہ مواقع پیدا ہونگے۔

آج کل معاشرے کی حالات تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ بگڑ چکی ہے۔ علم اور عقل کی کمی کی وجہ سے ہمارے معاشرے کے اندر خودکشی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین غذر میں خودکشی کا رجحان بہت زیادہ ہوا ہے جس کہ وجہ تعلیم کی کمی بھی ہوسکتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 اور 2022 میں سب سے زیادہ 132 افراد نے غذر کے اندر خودکشی کی ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ علم /تعلیم کی کمی ہے۔ 

ایک دانشمند اور باشعور انسان ایسی حرکت کبھی نہیں کرتا۔خودکشی کی ایک اہم وجہ شرح خواندگی میں کمی اور بے روزگاری ہے۔ ہم ایسےمضامین منتخب کرتے ہے جن کا کوئی مستقبل ہمارے معاشرے کے اندر نہیں ہوتا جو بعد میں پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ ہمیں ایسے مضامین منتخب کرنا چاہیے جس کی ہمارے معاشرے کے اندر اہمیت ہو اور روزگار کے زیادہ مواقع فراہم ہو۔ خودکشی کی اس رجحان کو کم کرنے کے لئے ہمارے انتظامیہ، سوشل اداروں کو چاہیے کہ وہ طالب علموں کی رہنمائی کرئے تاکہ وہ ایسے حالات پر چلے جہاں تعلیم حاصل کرنے کے موقع مل سکے اور بعد ازاں بے روزگاری کا خدشہ نہ ہو اور روزگار کے موقع ذیادہ سے ذیادہ ہو۔

کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اس ملک کے تعلیم یافتہ افراد کے تناسب پر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی شرح تعلیم دوسرے ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ یہ کوئی چانس نہیں بلکہ سوچی سمجھی سازش ہے۔اب تک جتنی حکومتیں آئیں انہوں نے معاشرتی ترقی کو بالکل نظر انداز کر دیا۔نتیجتاً  پاکستانی قوم میں شعور،اعلی’ تعلیم،تحقیق اور تنقید کرنے کی صلاحیت کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ان کو یہ بے معنی وضاحتیں دی جا رہی ہیں کہ  کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے!

 آپ خود ہی فیصلہ کیجئے،غلامی کی زنجیر سے نکلیں اور اپنے لئے نئی،بہترین اور ایماندار قیادت کا انتخاب کریں۔ اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے اپنی قسمت بدلنے کا۔

پاکستان اکنامک سروے کے مطابق خیبرپختونخوا میں شرح خواندگی 52.4% سے بڑھ کر 55.1% ہو گئی۔

پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ تعلیم یافتہ عوام اشرافیہ کو سوٹ ہی نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ ہر صاحب اختیار و اقتدار نے تعلیم کو ہمیشہ عوام کے لئے مشکل سے مشکل ترین بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔  تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام جاہل رہ کر انکے حق میں نعرے مارتے رہیں ۔  نہ تعلیم ہو گی اور نہ ہی کوئی سوچ ہو گی!

نوجواں نسل کسی بھی ملک کیلئے قیمتی اثاثہ ہیں، اور اس ملک کے فخر اور کامیابی کا ذریعہ بھی۔ کیونکہ ان میں دُنیا کو تبدیل کرنے کی طاقت و صلاحیت موجود ہے۔ لیکن پاکستان میں نوجوان نسل میں خودکشی کا رحجان دن بدن بڑھتا جارہا ہے ۔ آئے روز خبروں میں نوجواں لڑکے لڑکیوں کی خودکشی کی خبردیکھنے میں آتی ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد 15 سے 20 کے سال کی عمر کے لڑکے اور لڑکیوں کی ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق دیکھا جائے تو دنیا بھر میں ہر سال ایک ملین افراد خودکشی کر تے ہیں۔ پاکستان میں خودکشی کی بڑھتی شرح کے باوجود اب تک کوئی سرکاری اعداد و شمار شایع نہیں کی گئی۔ 2001 میں ایک رپورٹ جاری کی گئی جس کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے اندر 3000 افراد نے خودکشی کی۔ اس کے بعد سے اب تک اعداد و شمار کی کوئی مکمل رپورٹ جاری نہیں ہوئی۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص خود کشی کرتا ہے تو اس کے خاندان والے اس کیس کو چھپا دیتے ہیں۔

پاکستان میں بڑھتا خودکشی کا رحجان ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے جس کی وجوہات میں سماجی دباؤ ، ڈپریشن، خوداعتمادی میں کمی، غربت اور نوعمری کی محبت ہے، جبکہ دوسری وجہ تعلیمی دباؤ ہے۔ والدین اور اساتذہ کی طرف سے بچوں پر تعلیمی دباؤ انہیں ڈپریشن میں مبتلا کردیتا ہے جس کی وجہ سے کئی بچے خودکشی کرچکے ہیں، جبکہ اس کی سب سے بڑی وجہ مذہب سے دوری بھی ہے۔ ہم آج کل اپنے بچوں کو صحیح طرح مذہب کی تعلیم دے ہی نہیں پارہے۔ ہم اپنے بچوں کو سمجھا ہی نہیں پارہے کہ ہمارے دین اسلام میں خودکشی اور ناامیدی کتنا بڑا گناہ ہے۔

ایک اور وجہ والدین اور بچوں کے درمیان آنے والا ٹیکنا لوجی کا فاصلہ بھی ہے۔ بچے والدین سے اپنی بہت ساری اہم باتیں بھی شیئر نہیں کرپاتے، پرائیویسی کے نام پر بچے اپنے ماں باپ سے اہم مسائل بھی تک نہیں بتاتے جن کا بتانا ازحد ضروری ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 50 فیصد نوجوان غربت، بیروزگاری اور اقتصادی مشکلات کے سبب خودکشی کر تے ہیں۔ جبکہ ماہرِ نفسیات کے مطابق 80 فیصد نوجوان ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کرلیتے ہیں۔

ہمیں اپنے بچوں کو ذہنی طور پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں سمجھانے کی ضرورت ہے کہ زندگی میں بیشتر اُتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور موت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ ہمیں اپنے بچوں کو مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور انہیں حل کرنا سکھانا ہوگا ۔ والدین اور اساتذہ کو بچوں کے مسائل اور ذہنی حالت کو سمجھنا ہوگا، بچوں پر کسی بھی قسم کا دباؤ ڈالنے کے بجائے انہیں امید پسند بنانا ہوگا ۔ انہیں یہ سمجھانا پڑے گا کہ محنت اور اور مسلسل کوشش سے انسان کسی بھی کامیابی کو پاسکتا ہے۔ انسان کو کبھی ناامید نہیں ہونا چاہیئے اللہ تعالیٰ ہر مشکل کو آسان بنادیتا ہے اور اپنے بندے کو گرنے نہیں دیتا۔

والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی اس معاملے میں اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کو بچوں کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ، نوجواں نسل پر اعتماد دکھانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ بچے اپنے مسائل اور اپنی باتیں بلاجھجک والدین اور اساتذہ سے شیئر کرسکیں۔

میڈیا کا کردار بھی اس میں نہایت اہم ہے میڈیا پر چلنے والی فلمیں اور ڈرامے نوجواں نسل کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ لہٰذا میڈیا کو چاہیئے کہ مثبت چیزیں دکھائے تاکہ اس کے اثرات بھی مثبت ہوں۔

خود نوجوانوں کو بھی یہ سوچنا پڑے گا کہ اس کے خودکشی کرنے سے اُن کے ماں باپ پر کیا گزرتی ہوگی، ان کے اس اقدام سے ان کا خاندان معاشرے میں کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرتا ہوگا۔ زندگی ایک خوبصورت نعمت ہے اسے اللہ کے حکم کے مطابق گزارنا چاہیئے ۔ مشکلات کی مدّت ہی کم ہوتی ہے ۔ ہر مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں، یقیناًوہ مشکلات کو ختم کرنے والا ہے۔

یہی وقت ہے کہ ہم اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھیں اور اس کیلئے ہم سب کو مل کر عملی اقدام کرنے ہونگے تاکہ ہم اپنے نوجوانوں کی زندگی کو محفوظ کرسکیں۔

پاکستان کا مستقبل معیاری تعلیم سے وابستہ ہے

ہمارے ملک میں تعلیم حکمرانوں کی کبھی بھی پہلی ترجیح نہیں رہی اس کےلیے آج بھی ہم  دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شمار نہیں ہوتے ۔پچھلے بیس پچیس سالوں میں شرح خواندگی میں اضافہ ضرور ہوا ہے،اور موجودہ شرح خواندگی 57فیصد ہے، لیکن یہ شرحِ خواندگی بھی مطلوبہ شرح سے بہت کم ہے ۔ حکومت سے اس چیز کی توقع رکھنا بالکل فضول ہے لہذٰا ہمیں انفرادی طور پر کوشش کرنی ہوگی اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنا ہو گا۔

293,470پرستارلائک

لاکھوں لوگوں کی طرح آپ بھی ہمارے پیج کو لائک کر کہ ہماری حوصلہ افزائی کریں۔

شہزاد جلیل
شہزاد جلیلhttps://www.fiverr.com/s2/a0c6bc74c4
میرا نام شہزاد جلیل ہے۔ جامعہ ملتان سے فارغ التحصیل ہوں۔ لکھنا میرا شوق ہے۔ مختلف بلاگز، آن لائن اشاعتوں اور اداروں کے لیے مضامین لکھنے کے علاوہ میں نے مختلف کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ لکھا ہوا لفظ ہی محفوظ شدہ لفظ ہے۔ آپ فیس بک کے ذریعے مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں یا فائیور پر میرا کام دیکھ سکتے ہیں-