متعلقہ مضامین

مجموعہ مضامین

پاکستانی تاجر نے چینی بسنس مین سے بڑا فراڈ

کراچی: وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے کوآپریٹو...

تَخیُل کے لفظی معنی اور اسکا مطلب

اسم، مذکر، واحدخیال کرنا، خیال میں لانا، وہ خیال...

سربراہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی)  مولانا فضل الرحمان کا اہم بیان

سربراہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی)  مولانا فضل...

عمران خان کے بارے بڑی خوشخبری اچھی خبروں کا آغاز

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس ٹو میں...

24 نومبر کا احتجاج ملتوی؟

اسلام آباد: 24 نومبر کے احتجاج کو لے کر...

حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے ہمارا فیس بک پیج لائک کریں۔

293,472پرستارلائک

دنیا بدل چکی ہے۔ ہماری سوچ کب بدلے گی؟

تبدیلی اور جدت کی مخالفت و مزاحمت بعض قوموں کی اجتماعی سوچ کا صدیوں پرانا رویہ ہے۔جب بھی دنیا میں سائنسی تحقیق و ترقی کی بدولت کوئی نئی ٹیکنالوجی یا نئی سہولت متعارف کروائی  جاتی ہے  یہ نجانے کیسے اس کا منفی پہلو نکال لیتے ہیں اور پھر اس پہلو کی اتنی تشہیر کرتے ہیں کہ اس سہولت یا ٹیکنالوجی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگتا ہے۔

عصر حاضر میں ہماری بھی اجتماعی رویہ کچھ ایسا ہی ہے ہم جس تہذیب سے تعلق رکھنے والے ہیں اگر دیانت داری سے اپنے ماضی کس  جائزہ لیا جائے تو  ایک ترقی پسند (Progressive society) کی نمائندگی کرنے والے لوگ تھے پھر ایسا کیا ہوا کہ ہم اس سلسلے کو جاری نہ رکھ پائے ہم دنیا کو ٹیکنالوجی دینے والے ہونے کی بجائے کیوں اس کے استعمال تو دور کی بات ہم ہر ممکن طور پر اسے ناکام ثابت کرنے پر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے لگ گئے؟ اب ہمارا رویہ سائنس اور  سائنسی ترقی  کی مخالفت میں ہر ممکن وسائل استعمال کرتے ہیں جب اتنے میں بھی بات نہ بنے تو ہمارا آخری ہتھیار مذہب ہوتا ہے نجانے کہاں سے کوئی منطق تلاش کرکے اس سہولت کو ہی حرام قرار دے دیتے ہیں۔

ایسی مثالوں سے ہمارا ماضی قریب بھرا ہوا ہے۔  جیسے پرنٹنگ مشین کی ایجاد، ریڈیو، ٹی وی لاؤڈ اسپیکر اسی طرح کی دیگر ٹیکنالوجی پر بنے ہوئے انسانی سہولت کے برقی آلات،دنیا میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری دفاعی آلات کی ٹیکنالوجی پر کی جارہی ہے جس کا نتیجہ انسانیت دو ہولناک عالمی جنگوں کی صورت میں بھگت چکی ہے ان جنگوں سے تو بہت سی اقوام نے سبق سیکھا لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سلسلہ اب رک چکا ہے۔ 

آج بھی شیطانی، توسیع پسندانہ اور دنیا کے وسائل پر اجارہ داری قائم کرنے کے عزائم رکھنے والا ذہن اپنی پوری شدومد کے ساتھ انسانیت کی تباہی کا گھناونا کام جاری رکھے ہوئے ہے. جہاں دنیا جنگوں کی ہولناکی سے اپنی  جان چھڑانے میں لگی ہوئی ہے ہم مسلمان اپنی عوام کے منہ کے نوالے چھین کر ان شیطانی طاقتوں سے دفاعی ٹیکنالوجی اور اسلحہ خریدنے لگے ہوئے ہیں اور ان طاقتوں کو  مالی فوائد باہم پہنچا رہے ہیں دوسری بڑی سرمایہ کاری میرے خیال سے میڈیکل سائنس پر کی جا رہی ہے جو کہ ایک مثبت عمل ہے اور انسانیت کی بقاء وفلاح و بہبود کا کام ہے

ہمارا رویہ اس میدان میں جدید میڈیکل سائنس میں ہونے والی ریسرچ پر انتہائی منفی ہوتا ہے کبھی پولیو کی ویکسین کے خلاف فتوے تو کبھی کسی دوسری دواؤں کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان. کبھی خوراک کی پیداوار بڑھانے والے طریق کار کے خلاف عذر تراشے جاتے ہیں.اس کے علاوہ بھی دیگر شعبہ جات ہیں جن میں بھرپور سرمایہ کاری جاری ہے اس معاملے میں انسان کی جستجو لا محدود ہے اور تخلیق کا عمل لامتناہی ہے.اس ساری تمہید کے بعد ہم ذرا اپنا جائزہ لیں کہ ہم اس سارے معاملے میں کس مقام پر کھڑے ہیں؟

دفاعی ٹیکنالوجی میں ہم کس قدر خودکفیل ہیں، میڈیکل سائنس کی ترقی اور ریسرچ میں ہمارا  حصہ کتنا ہے، خلائی ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ہم کیا کردار ادا کر رہے ہیں یا کرتے آرہے ہیں؟اگر اعدادوشمار میں جائیں گے تو مایوسی کے سوا  کچھ نہیں ملے گا. تعلیم و تربیت کے لحاظ سے ہم اپنی نسلوں کو کیا دے رہے ہیں.

یہ تمام باتیں تو مادی ترقی سے متعلق ہیں اب اگر اخلاقی اقدار کی بات کریں تو اس بارے میں ہم ترقی یافتہ اقوام پر انگلیاں اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیں تو اپنے معاشرے میں اخلاقی اقدار کا ہم جنازہ نکال چکے ہیں لیکن ابھی بھی ماننے کو تیار نہیں ہیں. 

ہمارے اخبارات کی شہ سرخیاں بننے والے واقعات کے علاوہ وہ واقعات جو اس دائرے میں نہیں آتے ان سب کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں اگر ہم میں ذرا سی بھی انسانیت ہوتو یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے. ہم واقعی ایک گھٹیا اور بدبودار معاشرے میں رہ رہے ہیں اوپر سے ہماری ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ ہم اعلٰی ترین صفات کے مالک پیغمبر کی امت ہونے کے دعویدار بنتے ہیں. یہاں میں مزید تفصیل میں نہیں جاؤں گا. تحریر کے عنوان کے ساتھ انصاف کا تقاضا ہے کہ اسی موضوع کو زیر بحث رکھا جائے۔

اگر سیاست کی بات کریں تو ہم خود کو آسمانی رہنمائی جسے ہم سینہ تان کر ضابطہ حیات کہتے ہیں کے حامل دعویدار ہیں لیکن اس حوالے سے یا تو ہم ترقی یافتہ اقوام کے دیئے نظام سیاست کو مذہب سے ہم آہنگ یا متصادم لانے کے بارے میں اپنی توانائیاں صرف کرنے میں  لگے رہتے ہیں ہم ان قوموں کے نظام سیاست کو اپنانے پر مجبور بھی ہیں اور اس پر نقطہ چینی یا پھر اسے کفریہ ثابت کرنے  کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے بھی نہیں دیتے. کچھ ایسا ہی حال ہمارے نظام معاشیات کا ہے۔

مجھے اپنے بچپن کے وہ دن یاد آتے ہیں جب ہم کچھ دوست مل کر شام کو گلی کے ایک دوست کے گھر میں ٹی وی دیکھنے جایا کرتے تھے- ان دنوں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کا زمانہ ہوتا تھا کچھ لوگوں کے گھر میں کلر ٹی وی بھی ہوتے ہونگے لیکن ایسے دوست ہماری دسترس سے باہر تھے- تب بھی ہمارے والدین ہمارے ٹی وی  دیکھنے کے شوق کو مخالفت کا نشانہ بنانے تھے- کچھ مذہبی گھرانے تو بالکل بھی اس عمل کی اجازت نہیں دیتے تھے- لیکن تب ہماری سوچ کی سطح اتنی نہیں تھی کہ ٹی وی کی برائی اور اچھائی پر اپنی کوئی الگ رائے قائم کر سکیں- ان دنوں ریڈیو بہرحال اس متنفر طبقے کے عتاب سے کافی بچ گیا  ہوا تھا لیکن وی سی آر کی نئی نئی انٹری بھرپور زیرِ عتاب تھی- چوری چھپے کرائے پر وی سی آر لے کر آنا اور رات کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت جاگ جاگ کا دیکھنا اور اس عمل کو مجرمانہ فعل سمجھ کر کیا جاتا تھا- بعض اوقات کچھ نوجوان اپنے وسائل اور واقفیت کی وجہ سے ذہنی و نظری عیاشی کے لئے پورن فلمیں بھی دیکھا کرتے تھے- ایسے واقعات کی شکایت اگر پولیس کو مل جاتی  تو چھاپے اور جرمانے کی سزا ملتی تھی جس کے بعد وہ نوجوان کچھ عرصہ تک یاتو کسی کے سامنے نہیں آتے تھے یا پھر شرمندگی اور احساس گناہ کی وجہ سے اپنے آپ کو محدود کر لیتے تھے۔

وی سی آر کرایہ پر دینے اور فلمیں فروخت کرنے کے کاروبار کو معیوب سمجھا جاتا تھا شاید اب بھی ہو لیکن یہ کاروبار کافی ماڈرن شکل اختیار کرگیا ہے۔

طالب علمی کے زمانے میں جب میں میٹرک میں تھا تب میں نے اپنے سے سینئر نوجوانوں سے انٹرنیٹ کا نام سنا اور اس کے ساتھ ہی اس سے جڑے منفی پہلو کے بارے میں بھی سنا لیکن تب اس ٹیکنالوجی سے تعارف نہ ہونے کی وجہ سے کچھ زیادہ دلچسپی نہ ہوئی- لیکن تجسس ضرور پیدا ہو چکا تھا- جب یہ سہولت میری دسترس میں آئی تو اس بارے میں ذہن میں پہلے پیدا شدہ منفی ایمج کی وجہ سے اس کا استعمال بھی منفی انداز سے شروع کیا پھر یہ سلسلہ چل نکلا- یہاں ایک بات کا ذکر بھی کرتا چلوں کہ جن مخصوص سوچ کے لوگوں کو اوپر مذکورہ الیکٹرانک آلات سے چڑ تھی ان میں سے بھی بہت سے لوگ حج بیت اللہ کو براہ راست دیکھنے کے لئے اسی ٹی وی کے سامنے اکٹھے ہوا کرتے تھے اور جب کبھی کسی مذہبی عالم کی  ویڈیو کیسٹ کسی کے پاس ہوتی تو وہ بھی وی سی آر تلاش کر رہا ہوتا۔

دونوں مثالیں ہمارے نوجوانوں کے تجربات کی عکاسی کرتی ہیں. ہوسکتا ہے بعض لوگ میری اس بات سے اتفاق نہ کریں لیکن بین الاقوامی اعداد و شمار ہمارے لوگوں کے بارے میں جو نتائج پیش کرتے ہیں ان کے پیچھے یہی محرکات ہیں- یہ دینے کا دراصل مقصد ہی یہی ہے کہ ہمیں ٹیکنالوجی کے ہمیشہ منفی پہلو اور ان کے اثرات کا ہی پہلے پہل تعارف ہوتا ہے۔

پنجابی کی ایک مشہور مثال ہے ” باندر دے ہتھ وچ ادرک آیا تے مارے چیکاں”.

دوسری مثال ” گدھے نوں کی لگے گڑ نال”

ہم جیسے غیر تربیت یافتہ لوگوں کا بھی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ یہی معاملہ ہے- جنہیں کبھی بھی اس کی افادیت کے بارے میں بتایا ہی نہیں جاتا بلکہ منفی تاثر و ترویج پیدا کرکے متجسس کیا جاتا ہے اور جب یہ ٹیکنالوجی عوام الناس کی پہنچ میں آجاتی ہے تو اگلی پچھلی کسریں نکالی جاتی ہیں- ٹیکنالوجی کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے نہ ہی ایمان جو استعمال سے پہلے انسان کو خود بتا سکے کہ مجھے کیسے اور کن مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے- اس کے استعمال کا مقصد ہم انسانوں نے خود طے کرنا ہوتا ہے- ٹیکنالوجی کی ترقی کے پیچھے انسان کا وہ دماغ کام کر رہا ہوتا ہے جو اس کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے اور اس کے سامنے مستقبل کے چیلنجز ہوتے ہیں- اگر انسان ان چیلنجز اور ضروریات کا ادراک ہی نہ رکھتا  ہوتو وہ ایسی ترقی کی قدر نہیں کر سکتا نہ ہی اس کی دلچسپی کا باعث ہوتی ہے۔

ہمارے مذہبی اور بزرگ  حضرات کو  شکایت   ہو جاتی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو جدیدیت تباہ کر رہی ہے یہ لوگ اپنی مذہبی و سماجی اقدار سے باغی ہو کر اخلاقی طور پر تباہ ہو رہے ہیں۔

تو جناب والا ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نوجوان نسل انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دوسری سہولیات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے منفی استعمال کرکے تباہ ہو رہی ہے تو کیا انہیں ایسی ٹیکنالوجی اور سہولیات سے دور رکھا جائے یا پھر محدود رکھتے ہوئے کڑی نگرانی کی جائے. لیکن سوال یہ ہے کہ اس میں قصوروار اور ذمہ دار ٹیکنالوجی ہے یا کوئی اور؟

سب سے پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ جدید ٹیکنالوجی کی ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہمیں اسے تعمیری مقاصد کے لئے استعمال کر سکیں- اس کے بعد ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہمارے کردار اور اخلاق کس قدر مضبوط اور بلند ہیں کہ ٹیکنالوجی کے منفی استعمال کو جانتے ہوئے بھی اس سے اغراض برتتے ہوئے اپنے مقصد پر ڈٹے رہیں؟

ان سوالوں کے جوابات دینے کی اشد ضرورت ہے. اخلاقی اقدار کا تعلق ہماری گھریلو تربیت اور ایمانیات سے ہے جو ہمیں اپنے بزرگوں اور سماج سے ملتی ہے ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں فرشتہ صفت انسان تو ملنے سے رہے لیکن کیا انسانی سطح کی کوئی بات ملتی ہے؟ ہمارے اپنے قول و فعل میں جس قدر تضاد ہے کیا ہم ایسے پس منظر میں نوجوانوں کی اعلٰی قدروں پر تربیت کر سکتے ہیں. اس کے نوجوان اور بزرگوں کے مابین پائی جانے والی خلیج (Generation Gap) بھی ایک رکاوٹ ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے لیکن شاید ہماری ماں اس معاملے میں بانجھ ثابت ہوئی ہے-

تو جناب ہم آخر کار حل یہ نکالتے ہیں کہ نوجوانوں یا بچوں کو محدود مرحلہ وار ٹیکنالوجی سے متعارف کروایا جائے. لیکن آج کے دور میں یہ ہماری خام خیالی ہے کہ اس نسل کو ہم ٹیکنالوجی سے دور رکھ پائیں گے- ہم جو سوچ رہے ہوتے ہیں ہمارے نوجوان بلکہ بچے اس تک پہلے ہی دسترس حاصل کرچکے ہوتے ہیں- 

ان حالات میں بہترین حل یہی ہے کہ ہم جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات کے بپھرے ہوئے سیلاب کے سامنے  کھڑے ہوکر مزاحمت کرنے کی بجائے اس کی افادیت کو سمجھیں اور اس سے تخلیقی و تعمیری کام لینے کی ضرورت کا ادراک کریں- کیونکہ ہم اس سیلاب کو روک تو سکتے نہیں تو بہتر ہوگا اس میں ڈوبنے کی بجائے تیراکی سیکھ کر لطف اندوز ہوں- اسی میں ہماری عافیت اور بقاء مضمر ہے-

 بھلا ہو اس انٹرنیٹ کی سہولت اور سوشل میڈیا کا جو مسلسل آگاہی پھیلا رہا ہے یعنی جو کام ہمارے بزرگوں اور اساتذہ کے کرنے کا تھا وہ فریضہ اب سوشل میڈیا نے لے لیا ہے- اس کی سب سے بڑی خوبی ہی یہی ہے کہ یہ منفی اور مثبت پہلو انسان کے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے- جہاں جدت پسندی کی مخالفت موجود ہے وہاں اسی کی حمایت بھی موجود ہے- جہاں ماضی کی عظمت رفتہ کے ترانے ہیں وہاں حال کی پسماندگی کی  نوحہ کنائیاں بھی ہیں- جہاں حال کا بے بنیاد غرور ہے وہاں مستقبل کو اپنے حق میں موافق بنانے کے عزم بھی ملتے ہیں، تاکہ انسان آزادانہ طور پر اپنی سوچ اور شعور سے اپنے لئے بہتر اور مضر کا فیصلہ کرے۔

  انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا وہ پہلو ہے جس کے سامنے بڑی سے بڑی مزاحمت بے کار  ہوتی جا رہی ہے۔  ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم جدت کے  مخالف  رویہ کو ترک کرتے ہوئے جدت پسندی کو فروغ دیں اور تبدیلی کی مزاحمت کی بجائے اسے خوش آمدید کہتے ہوئے اپنے لئے سازگار بنائیں۔

293,472پرستارلائک

لاکھوں لوگوں کی طرح آپ بھی ہمارے پیج کو لائک کر کہ ہماری حوصلہ افزائی کریں۔

شہزاد جلیل
شہزاد جلیلhttps://www.fiverr.com/s2/a0c6bc74c4
میرا نام شہزاد جلیل ہے۔ جامعہ ملتان سے فارغ التحصیل ہوں۔ لکھنا میرا شوق ہے۔ مختلف بلاگز، آن لائن اشاعتوں اور اداروں کے لیے مضامین لکھنے کے علاوہ میں نے مختلف کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ لکھا ہوا لفظ ہی محفوظ شدہ لفظ ہے۔ آپ فیس بک کے ذریعے مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں یا فائیور پر میرا کام دیکھ سکتے ہیں-