کچھ سفید فام لوگوں کا یہ یقین ہے کہ وہ سب دنیا کی باقی تمام اقوام سے زیادہ بہتر ہیں اس لئے انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ دنیا کی تمام قوموں پر غلبہ رکھیں۔ اسی محتصر آئڈیا کو بنیادی طور پر سفید فام بالادستی یا پھر وائٹ سپریمیسی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک بنیادی اور مختصر سی تعریف ہے لیکن یہ صرف یہیں تک ہرگز محدود نہیں۔
یہ بات کسی غیر مانوس شخص کو سننے میں شاید بڑی عجیب لگے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسے ماننے والے دنیا میں بہت سے لوگ موجود ہیں جو نہ صرف اس پر یقین رکھتے ہیں بلکہ اس کا کھلم کھلا پرچار کرتے ہیں۔
یہ اصطلاح نہ صرف ایک سیاسی نظریے کی شکل اختیار کر چکی ہے بلکہ نظریہ بھی ایسا جو سفید فام لوگوں کا سیاسی، سماجی، تاریخی اور ادارتی تسلط چاہتا ہے۔ یہ نظریہ صرف کہنے کی حد تک نہیں بلکہ ہم اس کا عملی نمونہ بھی اپنے روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اصول کہ قانون سب کے لئے برابر ہے، اس سطحی سی یا نظر آنے والی برابری کا بھانڈا بیچ چوراہے میں اس وقت پھٹتا ہے جب ایک ہی جرم میں ایک سفید فام اور ایک سیاہ فام کے ساتھ الگ الگ برتاؤ کیا جاتا ہے۔
سفید فام بالادستی کے ماننے والوں کا دعوی کہاں سے شروع ہوتا ہے تاریخ میں اس کی کیا جگہ ہےاور کیا اس میں کوئی حقیقت ہے؟ اس کو جاننے کے لیے ہمیں پندرہویں صدی تک پیچھے جانا پڑے گا جب یورپ ابھی پاپائیت کے چنگل سے آزاد ہو رہا تھا اور وہ مذہب سے ہٹ کر سائنس کی بنیاد پر اپنے علوم کو آگے بڑھانا شروع کر رہے تھے۔ آپنے انہیں علوم کی بنا پر سولہویں صدی کے آغاز میں یورپ نے ایک عظیم صنعتی انقلاب رونما ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپی اقوام کو اس وقت کی جدید مشینری اور اسلحے تک دسترس حاصل ہوئی۔ اسی سولہویں صدی میں دو قابل ذکر کام ایسے ہوئے جس نے جدید سفید فام بالادستی کی بنیاد رکھی۔
- یورپی اقوام نے اپنی طاقتور مشینری کے بل بوتے پر دنیا کی باقی عوام پر اپنا غلبہ حاصل کرنا شروع کیا اور انہیں اپنا غلام بنانا شروع کر دیا۔ یہ وہی دور ہے جب یورپی اقوام نے برصغیر افریقہ اور دنیا کی تمام چھوٹی بڑی ریاستوں کو اپنے تسلط میں لیا۔
- دوسرا قابل ذکر کام یہ ہوا کہ یورپی سائنسدانوں نے اپنی بڑھتی ہوئی طاقت اور سائنس میں ترقی کی وجہ سے سے ایک نسلی بیالوجی (racial biology) یا سائنسی نسلی امتیاز (scientific racism )کی تھیوری ایجاد کی. جس کے مطابق معنی یہ جاتا تھا کہ ایک نسل کے دوسری نسل پر بالادست ہونے کے سائنسی شواہد موجود ہیں
سولہویں صدی میں میں یورپی اقوام کی سائنس میں ترقی اوردوسری اقوام پر آسانی سے غلبہ پا لینے کی وجہ سے نسلی امتیاز کے اس نظریے کو کافی پذیرائی حاصل تھی۔ یہ نظریہ سولہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی میں جنگ عظیم دوم کے اختتام تک ک کافی مقبول رہا۔ لیکن بیسویں صدی میں جیسے جیسے جینیات (genetics)کے علم نے ترقی کی کی ویسے ویسے سے سائنسدانوں نے اس نظریے کو بڑے پیمانے پر رد کرنا شروع کیا۔ سائنسدانوں کے مطابق جینیاتی طور پر نسلی برتری کے کوئی شواہد موجود نہیں۔ آج کے دور میں پوری دنیا کے سائنسدان اس نسلی برتری کے نظریے کو مکمل طور پر رد کر چکے ہیں۔
یہ تو تھا نسلی برتری کا مختصر سا پس منظر۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ پس منظر موجودہ حالات میں کس طرح سفید فام نسل پرستی کو کو فروغ دیتا ہے۔
دنیا جیسے جیسے سمٹ کر ایک گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے ہے اسی طرح کے رہنے والے مختلف لوگوں کے لئے آسانی پیدا ہوئی ہے کہ وہ ایک جگہ سے جا کر دوسری جگہ پر اپنی سکونت اختیار کریں۔ دنیا کے تمام پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے لوگوں میں عموما یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ دنیا کے کسی خوشحال اور ترقی یافتہ ملک کی طرف ہجرت کریں تاکہ انہیں بھی روزمرہ کی معاش اور کاروبار کے برابری کے مواقع میسر ہوں۔ اس مقصد کے لیے سب سے زیادہ نقل مکانی یورپی ممالک کی طرف ہی ہوتی ہے۔ مختلف النسل لوگوں کے وہاں جانے اور وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ میل جول اور ملاپ کے نتیجے میں ایک نئی نسل وجود میں آتی ہے اور پرانی نسل کا بتدریج خاتمہ ہوتا جاتا ہے۔ اس رجحان نے سفید فام نسل پرست لوگوں کو پریشانی کا شکار کیا ہے ہے ان کے مطابق اگر ایسے ہی چلتا رہا تو ایک وقت آئے گا کہ سفید فام نسل جس کو وہ باقی اقوام سے بالاتر سمجھتے ہیں ختم ہو جائے گی۔
یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس نے سفید فام نسل پرستی کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں فروغ دیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں اس وقت قومیت پرستی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔اگر پوری دنیا میں موجود بڑی بڑی حکومتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا کے تمام بڑے ممالک میں ان جماعتوں کی حکومت ہے جو قومیت پرستی کو ترجیح دیتے ہیں ہیں جیسے کہ کہ انڈیا جہاں پر ایک ہندو قومیت پرست جماعت کی حکومت ہے، امریکہ جہاں کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک نیشنلزم کے نام پر امریکہ پہلے اور امریکہ کو عظیم بناؤ کا نعرہ لگا کر حکومت بناتے ہیں انگلینڈ جہاں کا وزیر اعظم بورس جانسن انگلینڈ پہلے کا نعرہ لگا کر کر یورپی اقوام کی یونین سے انگلینڈ کو نکالتا ہے۔
حالیہ دنوں میں امریکہ میں چلنے والی ایک بہت بڑی تحریک بلیک لائیوز میٹر (black lives matter) بی رنگ و نسل میں اسی فرق تفاوت کا نتیجہ ہے۔ یہ تحریک بھی آئے دن سیاہ فام لوگوں کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت اور سیاہ فام لوگوں کے ساتھ روا رکھے گئے گئے نسلی امتیازی سلوک کی وجہ سے ہے۔