کرکٹ کو اگر ایک کتاب مانا جائے تو ویرات کوہلی اُس کتاب کا سب سے اہم باب ہو گا۔
کرکٹ کو اگر ایک الگ دنیا سمجھا جائے تو ویرات کوہلی اس دنیا کا سے سے حسین اور مہنگا شہر ہوگا۔
لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ ہر عروج کو زوال ہے۔یہ زوال کبھی تھوڑتے وقت کے لئے آتا ہے تو کبھی یہ زوال ہمیشہ قائم رہتا ہے۔
ویرات کوہلی کی زندگی بھی اب اِسی سٹیج پہ پہنچ چکی ہے۔ کرکٹ کی کتاب کایہ باب کیا اب کسی کام کا نہیں ہے؟
کیا اس باب کے صفحات اب پھاڑ کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دئیے جائیں گے؟
ویرات کوہلی کو پہلے ایک روزہ کرکٹ کی کپتانی سے، پھر ٹی 20، اور آخر میں ٹیسٹ کی کپتانی سے بھی ہٹا دیا گیا!
کیا کتاب کے اس باب کو کتاب سے باہر کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے؟
ویرات کوہلی کی زندگی کے کرکٹ کے پچھلے تین سال بد ترین گزرے ہیں۔کوہلی کی کرکٹ لائف ایک ایسی کھائی میں پہنچ گئی ہے جہاں سب سے نیچے ایک گہری دلدل ہے۔اس دلدل سے نکلنے کے لئے یا تو ویرات کو دوبارہ اپنی فارم میں واپس آنا پڑے گا یا پھر ریٹائرمنٹ لے کر اس دلدل میں دھنس جانا ہو گا۔
لیکن اپنے کرکٹ کیریر میں 70 سینچری سکور کرنے والے کھلاڑی کے کیریر کا اختتام اس طرح کیسے ہو سکتا ہے!
کتاب کا یہ چیپٹر کب الگ کیا جائے گا؟
٭ ویرات کوہلی بطور کپتان:(سفر کا آغاز)
٭ بائی لیٹرل سیریز اور ٹورنامنٹس میں انڈین ٹیم کی پرفارمنس:
٭ ویرات کوہلی کے ڈاؤن فال کا آغاز:
٭ ویرات کوہلی کی کپتانی کی سب سے بڑی خامی:
٭ ویرات کوہلی اور دھونی کی کپتانی میں فرق:
٭پاکستانی کرکٹر محمد آصف کا ویرات کوہلی کے بارے میں بیان:
ان سب کی تفصیل اس آرٹیکل میں ہے۔
آگے پڑھئیے!
آئی پی ایل کے 15 سیزن ،ایک ہی ٹیم میں کھیلنے کے باوجود اپنی ٹیم کو کبھی بھی چمپئین نہیں بنا سکا! یہ بات تو سب جانتے ہیں، لیکن یہ بات جانتے ہوئے بھی کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے کہ اسی ویرات کوہلی کی کپتانی میں انڈیا کی ٹیم نے آسٹریلیا جیسی ٹیم کو آسٹریلیا میں، انگلینڈ جیسی ٹیم کوانگلینڈ میں اور ساؤتھ افریقہ جیسی ٹیم کو ساؤتھ افریقہ میں ٹیسٹ سیریز میں شکست دی ہے، جو کہ کسی بھی ایشیائی مُلک کےکپتان کے لئے کسی خواب سے کم نہیں ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ ویرات کوہلی کے کیریر کا ڈاؤن فال چل رہا ہے لیکن جتنی کوہلی کی اپنے ملک کے لئے خدمات ہیں انہیں اس طرح ٹیم سے باہر نہیں نکالا جا سکتا۔آئی پی ایل 2022ء کے بعد انڈیا کی سیریز ساؤتھ افریقہ کے ساتھ ہے۔ اور اس سیریز میں ویرات کو آرام کا مشورہ دیا گیا ہے۔
ویرات کوہلی بطور کپتان:(سفر کا آغاز)
2014-2015ء میں جب انڈیا کی ٹیم آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز کھیل رہی تھی تو سیریز کے درمیان میں ہی دھونی نے کپتانی چھوڑ دی تھی اور ویرات کوہلی کو کپتانی ملی تھی۔ ویرات کوہلی نے اپنے کیریر میں بطور کپتان، پہلے ہی میچ میں بتا دیا تھا کہ جیت اُن کے لئے اور اُن کے ملک کے لئے کتنی اہم ہے۔ٹیم سلیکشن سے لے کر ٹیم کی فارمینس صرف اس ایک فیصلے سے مثبت انداز میں تبدیل ہوئی، پہلے میچ میں جب آخری دن انڈیا کو 350 رنز درکار تھے، تو پریس کانفرینس میں ویرات کوہلی نے یہ کہا کہ وہ میچ ڈرا کرنے کانہیں سوچ رہے بلکہ وہ جیت کے لئے جائیں گے۔
انڈیا کی ٹیم نے اس میچ میں بہت زبر دست پرفارمنس دی لیکن تھوڑے سے مارجن سے ہار گئی، لیکن اس کے باوجود ویرات کوہلی کی کپتانی کی بہت تعریفیں کی گئیں کہ انڈیا اور ایشیاء میں پہلی بار ایک ایسا کپتان آیا ہے جو آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچ جیتنے کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے تو تمام ایشیائی کپتان اگر آسٹریلیا میں سیریز برابر بھی کر آتے تو وہ اس چیز کو اپنی جیت سمجھتے تھے۔ اس میچ میں اگر ویرات کی بیٹنگ کی بات کی جائے تو کپتان نے دونوں اننگز میں سینچری سکور کیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کسی بھی کھلاڑی کے بطور کپتان سفر کاایک سنہرا دور شروع ہوا تھا۔
بائی لیٹرل سیریز اور ٹورنامنٹس میں انڈین ٹیم کی پرفارمنس:
ہار سے شروع ہونے والے اس سفر میں بعد میں بہت سی جیتیں حاصل ہوئیں۔ ویرات کوہلی کی کپتانی میں ایک روزہ کرکٹ میں انڈیا کی ٹیم کی پرفارمنس تو بہت اچھی رہی۔پھر بھی جو سب سے بڑا سوالیہ نشان تھا وہ یہ تھا کہ انڈیا کی ٹیم سیریز میں تو جیت حاصل کر رہی تھی لیکن کسی بڑے ٹورنامنٹ میں جیت حاصل نہیں ہوئی۔ انڈیا کی ٹیم 2015 ءکے ورلڈ کپ میں سیمی فائنل، 2016ء کے ورلڈ کپ میں بھی سیمی فائنل، 2017 ء کی چمپئین ٹرافی میں پاکستان سے فائنل، 2019ء کے ورلڈ کپ میں پھر سیمی فائنل، 2021ء کی ٹیسٹ چمپئین شپ میں پھر فائنل ہار گئی۔ 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی بہت بُری پرفارمنس دی، ٹیسٹ چمپئین شپ اور 2021ء والے ورلڈ کپ میں انڈیا کی ہار کی بڑی وجہ ویرات کوہلی کی خراب پرفارمنس تھی۔
ویرات کوہلی کے ڈاؤن فال کا آغاز:
ویرات کوہلی کے ڈاؤن فال کا آغاز اس وقت ہوا جب 2019ء کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں انڈیا کی ٹیم نیوزی لینڈ سے ایک چھوٹے ٹارگٹ والے میچ میں بھی تھوڑے رنز سے ہار گئی اور انڈیا کی ورلڈ کپ جیتنے کے خواب بھی ادھورے رہ گئے۔حالانکہ اس ورلڈ کپ میں صرف انڈیا اور انگلینڈ کی ٹیمیں ایسی تھیں جو بہت اچھا پرفارم کر رہی تھی۔ اور یوں نتیجتاً انگلینڈ کی ٹیم نے ورلڈ کپ جیت لیا تھا۔
ویرات کوہلی کی کپتانی کی سب سے بڑی خامی:
ویرات کوہلی کی کپتانی کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اپنی موجودگی کی وجہ سے اپنی بیٹنگ اور مہارتوں پہ حد سے زیادہ اعتبار کرتے ہوئے کبھی بھی اپنی ٹیم کے لئے اچھا مڈل آرڈر تیار نہیں کیا۔ انڈیا کی ٹیم 2015ء کے بعد ہمیشہ اوپر والے تین بیٹسمین پہ انحصار کرتی رہی، اور جیسے ہی اوپر کے تین کھلاڑی جلدی آؤٹ ہوئے، باقی کی ٹیم سائیکلز کی لائن کے جیسی ثابت ہوتی، جیسے سائیکل سٹینڈ میں اگر ایک سائیکل کو دھکا دے دو تو سب سائیکلز گرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اچھا مڈل آرڈر نہ ہونے کی وجہ سے انڈیا کی ٹیم چھ بڑے ٹورنامنٹ میں شروعات میں اچھا پرفارم کرنے کے باوجود ایک میچ میں خراب کھیل پیش کر کے ٹورنامنٹ سے باہر ہوتی رہی، لیکن اس کے باوجود ٹیم سلیکشن کے وقت میرٹ کو ایک طرف کر کے اپنی مرضی کے ٹیم کا انتخاب کیا جاتا رہا۔
ویرات کوہلی اور دھونی کی کپتانی میں فرق:
بطور کپتان کوئی بھی کھلاڑی اگر اپنی ٹیم کو جیت دلانا چاہتا ہے تو اس کے لئے صرف ، بیٹنگ، باؤلنگ، موقع پہ فیصلہ(کس کو کب بیٹنگ پہ بھیجنا ہے اور کس کو کب باؤلنگ دینی ہے) یہ چیزیں اُتنا زیادہ اثر نہیں رکھتی، اصل میں اس کے ساتھ ایک یہ چیز بھی اثر رکھتی ہے کیا آپ نے ایسی ٹیم تیار کی ہے جو ہر ملک میں، ہر قسم کے موسم میں، ہر قسم کے پریشر کی صورتحال میں کھیل سکے۔ دھونی اور ویرات کوہلی کی کپتانی میں سب سے بڑا فرق یہ رہا ہے کہ دھونی نے جتنا جلدی ہو سکا، اُن کھلاڑیوں سے اپنی اور ٹیم کی جان چھڑائی جو جلد ریٹائر ہونے والےتھے۔ اس کے بعد دھونی نے ایک باقاعدہ ٹیم تیار کی، ان کھلاڑیوں کو ہر ملک میں، اور ہر طرح کی صورتحال میں کھیلنے کی تربیت دی۔ویرات کوہلی کے چھ سال کے بطور کپتان کیریر میں کوئی بھی کھلاڑی مڈل آرڈر میں زیادہ عرصہ نہیں رہا۔ جو اچھا کھیلتے وہ ذاتی نا پسندیدگی کی بنا کر، فٹنس کا بہانہ بنا کر ٹیم سے باہر کر دئیے جاتے رہے۔ جو اپنی پسند کے کھلاڑی رہے ہیں اُن کو”امتحان میں موجود لازمی سوال کی طرح” ٹیم میں سلیکٹ کیا جاتا رہا جس کا نتیجہ بہت ہی بھانک نکلا۔
ٹیم کا ٹاپ تین بیٹسمین پہ منحصر ہونے کی وجہ سے جس میچ میں روہت شرما جلدی آؤٹ ہوئے، اس میچ میں باقی سب کھلاڑی جلدی آؤٹ ہو جاتے۔ یہ صورتحال دیکھتے ہوئے مخالف ٹیمیں یہ سمجھ گئی کہ انڈیا کی ٹیم میں اوپر کے تین کھلاڑی آؤٹ کر دو، باقی کھلاڑی ریت کی دیوار کی مانند ہیں۔ اسی حکمتِ عملی کو اپناتے ہوئے جب بڑے ٹورنامنٹس کے اہم مقابلوں میں انڈین ٹیم کا مقابلہ اچھی ٹیم سے ہوا تو انڈیا کی ٹیم ٹورنامنٹ سے باہر ہوتی رہی۔
٭پاکستانی کرکٹر محمد آصف کا ویرات کوہلی کے بارے میں بیان:
محمد آصف نے ویرات کوہلی کے بارے میں یہ کہا تھا کہ کوہلی باٹم ہینڈ پلئیر ہے، وہ فٹنس کی وجہ سے اچھا کھیل رہا ہے، جس دن اس کی فارم گئی سمجھو، اس کا ڈاؤن فال شروع ہو گیا۔ اور اس کا ڈاؤن فال اس طرح کا ہو گا کہ اسے کم بیک کرنے میں بہت مشکل ہوگی۔
کوہلی اور سچن ٹنڈولکر کا موازنہ کرتے ہوئے پاکستانی باؤلر محمد آصف نے کہا کہ سچن بہت بڑا پلیئر رہا ہے۔ کوہلی اس کے قریب بھی نہیں ہے۔