متعلقہ مضامین

مجموعہ مضامین

پاکستانی تاجر نے چینی بسنس مین سے بڑا فراڈ

کراچی: وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے کوآپریٹو...

تَخیُل کے لفظی معنی اور اسکا مطلب

اسم، مذکر، واحدخیال کرنا، خیال میں لانا، وہ خیال...

سربراہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی)  مولانا فضل الرحمان کا اہم بیان

سربراہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی)  مولانا فضل...

عمران خان کے بارے بڑی خوشخبری اچھی خبروں کا آغاز

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس ٹو میں...

24 نومبر کا احتجاج ملتوی؟

اسلام آباد: 24 نومبر کے احتجاج کو لے کر...

حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے ہمارا فیس بک پیج لائک کریں۔

293,472پرستارلائک

بچے کی پہلی تربیت گاہ” ماں کی گود”

-بچے کی پہلی تربیت گاہ” ماں کی گود” کیوں قرار دی گئی ہے؟

-بچے دو سال کی عمر کے بعد انگوٹھا کیوں چوستے ہیں؟

 -بچوں کی  تعلیم و تربیت میں کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیئے؟

-کیا سکولوں میں بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہوتی ہے؟

-آپ نے کبھی غور کیا کہ بچے جب اپنے پاؤں میں چپل پہنتے ہیں تو ہمیشہ اُلٹی کیوں پہنتے ہیں؟

-ان سب  سوالوں کے جواب اس آرٹیکل میں ملیں گے۔۔۔

آگے پڑھئیے!

بچے ہر کسی کو پیارے لگتے ہیں ، لیکن یہی  بچے دو تین سال کی عمر میں  جب کسی شادی بیاہ میں اپنے کپڑوں کا ستیا نا س کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت، جب بچے کی ماں  بچے کو پیمپر لگانا بھول جائے۔  ایسی صورتحال میں بچوں کو تو کچھ نہیں ہوتا، ساری شرمندگی والدین کو اٹھانا پڑتی ہے۔

بچے کی پہلی تربیت گاہ” ماں کی گود” کیوں قرار دی گئی ہے؟

بچے اپنے ابتدائی طفولیت کے دور میں لذت و راحت اپنے منہ سے حاصل کرتا ہے۔ چیزوں کو منہ میں ڈالنا ،چبانا  اورچوسنا اسکے لیے لذت کے دو بڑے ذرائع ہوتے ہیں۔بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے اور خوارک کے ساتھ ساتھ راحت وسکون بھی حاصل کرتا ہے۔ اس عمر میں بچہ زیادہ تر ماں کے ساتھ رہتا ہے تو اس وجہ سے سیکھنے کی ساری چیزیں بچے کو ماں ہی فراہم کرتی ہے۔

ایک مشہور بات ہے کہ ”پرانے وقتوں میں بچے کو جب ماں دودھ پلاتی تھی تو ساتھ دعا کرتی تھی کہ میرا بچہ سپہ سالار بنے گا،  گھڑ سوار بنے گا، اچھا جنگجو بنے گا اور وہ بن بھی جاتے تھے۔ جب کہ آج کل کی مائیں بچے کو دودھ پلاتی ہیں تو کہتی ہیں کہ جلدی سے پی کو سو جائے۔۔ قوم بھی اسی طرح سوئی ہوئی ہے اب۔۔۔۔

اس لئے ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ کہا گیا ہے کیونکہ وہیں سے ہی بچے کو تربیت کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی ملتی ہیں۔

بچے دو سال کی عمر کے بعد انگوٹھا کیوں چوستے ہیں؟

دو سال کی عمر میں بچہ ہر چیز کو منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے چیزوں کو منہ میں ڈال کے چوسنا ،چبانا اور اس کے ذریعے راحت کا حصول اس دور میں جاری  و ساری رہتا ہے ۔لیکن اگر کسی وجہ سے بچہ ماں کے دودھ اور مطلوبہ راحت و لذت سے محروم رہ جائے  تو اسکی شخصیت میں کچھ عادات و اطوار لاشعوری طور پر جنم لیتے ہیں اور بچہ اس حصول لذت کیلئے بھی مٹی کو منہ میں ڈالتا ہے اور انگلیوں کو منہ میں ڈال کے چوستا ہے۔ اگر اس مرحلے کی تکمیل میں کوئی بچہ نا کامیاب رہتا ہے تو اسکے اندر اس مرحلے کے مخصوص اطوار اپنے اَن مٹ نقوش چھاپ دیتے ہیں ۔

جیسا کہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بچے اپنے ناخن چبانے کی عادت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ لوگ بچپن میں اس عادت  کو انگوٹھا چوس کر پورا کرتے ہیں اور بچپن کے ادوار کے بعد بھی اسکے اندر یہ انگوٹھا چوسنے کی عادت قائم و دائم رہتی ہے ۔ اسی طرح جسم کے بال کھانا،لبوں کو چبانا  جیسی عادات بچپن کے اس ابتدائی طفولیت کی یادگار ہوتی ہیں ۔ اس طرح یہی عادات و اطوار جب طفولیت سے عنفوان شباب میں منتقل ہوتی ہیں تو لذت و راحت کے مطلوبہ حصول کیلئے سگریٹ نوشی سپاری وغیرہ انگوٹھا چوسنے اور ناخن چبانے جیسی عادات کا متبادل بن جاتی ہیں ۔

 بچوں کی  تعلیم و تربیت میں کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیئے؟

جن بچوں سے جلدی دودھ چھٹر والیا جاتا ہے اسکے اندر ایک احساس عدم تحفظ جنم لیتا ہے جو آنے والی زندگی میں اسکو مایوس شخصیت یا پھر لالچ وطمع سے بھر پور شخصیت بنادیتا ہے جو ہر چیز پر قابض ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ بچپن کے اس دور میں بچہ اپنے والدین خصوصاً ماں کا دست نگر ہوتا ہے اگر اسے مطلوبہ غذا اور لذت و راحت سے محرومیت کا سامنا کرنا پڑے تو اسکے اندر جارحیت کا رویہ تشکیل پاتا ہے اور دہ آنے والی زندگی میں سخت مزاج اور نقادی شخصیت بن کے ابھرتا ہے ۔

اور اگر اسکی ضروریات لذت و راحت  بہم دیگر خوارک تسلسل کے ساتھ پوری ہوں تو اسکے اندر خوش مزاجی تعمیری اطوار پروان چڑھتے ہیں ۔ جبکہ خوراک ولذت کی عدم فراہمی بھی اسکی شخصیت میں تعمیری عوامل تشکیل دے سکتی ہے جس کی وجہ اس تشویش کا تدارک ہوتا ہے جو احساس عدم تحفظ کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ چونکہ احساس عدم تحفظ اور لذت و راحت کی عدم فراہمی اسکے اندر تشویش اور ملال کو جنم دیتی ہے جو اسکی شخصیت کو ایک مسلسل گرداب میں جکڑ لیتی ہے۔ اور اس ڈپریشن سے شخصیت کو آزاد کرنے کیلئے ذہن قربانی اور اپنا مال دوسروں پر لٹانے جیسی خصلتوں کو جنم دیتا ہے جو بنیادی طور پر اس بات کا اظہار ہوتا ہے کے اسے ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔ یوں ضرورت سے زیادہ غنی اور سخی  ہونا بھی ایک ذہنی عارضے کی شکل ہے ۔

اس دور میں بھی بچہ رفع حاجات کے عادات و اطوار کو اپنے خارجی ماحول سے سیکھتا ہے  اگر بچے کو اس مرحلے کے دوران سخت ٹائلٹ ٹرینگ سے گزارا جائے اور غیر ضروری زور اور تحکم کے ذریعے اسے صفائی ستھرائی سکھائی جائے  تو بعدازاں اسکی شخصیت میں صفائی ستھرائی کا خبطی پن جنم لے لیتا ہے۔ جبکہ اگر بچے کی ٹائٹ ٹریڈنگ کو صحیح طور پر انجام نہ دیا جائے اور اسے صفائی ستھرائی کے آداب و اطوار سے آشنائی نہ بخشی جائے تو اسکے اندر گندار ہنے جیسی عادات پیدا ہو جاتی ہیں اور وہ اپنی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھنے کو بُرا نہیں سمجھتا ۔ بچپن کے اس دور میں سیکھے ہوئے  اطوار بچے کی نفسیات کی تعمیر کرتے ہیں۔

بچے جب تین سال کی عمر میں پہنچتے ہیں تو اس مرحلے کی سب سے اہم چیز بچے کی رغبت اور جھکاؤ ہے لڑکا اپنی ماں کی طرف رغبت اور محبت کے زیادہ جذبات رکھتا ہے جبکہ لڑکی اپنے باپ کے ساتھ زیادہ لگاؤ رکھتی ہے اس طرح انسان کے لاشعور میں جو اسے شہوت و لذت کے حصول پر مجبور کرتی ہے کسی اخلاقی قانون کی پاسدار نہیں ہوتی اس لیے بچوں میں ابتدائی طور پر متضاد والدین سے لگاؤ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔

کیا سکولوں میں بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہوتی ہے؟

آج کل کے سکولوں میں تربیت کے نام پہ بچوں کوکچھ بھی نہیں سکھایا جا رہا، پرائیویٹ سکولوں میں 20 بچوں کی کلاس میں 8 بچوں کی پہلی پوزیشن، 7 کی دوسری اور 5 بچوں کی تیسری پوزیشن دے کر بچوں اور اُن کے والدین کو خوش کیا جاتا ہے۔ تربیت کے نام پہ بچوں کو صرف یس سر اور یس ٹیچر سکھا کے اپنی عزت تو کرائی جاتی ہے لیکن، اُن کو بڑوں کی یا بزرگوں کی عزت کرنا نہیں سکھایا جاتا۔

آپ نے کبھی غور کیا کہ بچے جب اپنے پاؤں میں چپل پہنتے ہیں تو ہمیشہ اُلٹی کیوں پہنتے ہیں؟

یہ بات  آپ کو پڑھنے میں تھوڑی سی مزاحیہ اور عجیب لگے۔ آپ نے یہ لازمی دیکھا ہو گا کہ 2 سے 3 سال کے بچے کو ، بعض اوقات تو 5 سال تک کے بچے بھی؛ جب اُن کو پہننے کے لئے سادہ سی چپل دی جائے تو وہ اس کو اُلٹا  پہنتے ہیں۔ لیکن یہ چیز آپ لوگوں نے کبھی سوچنےکی زحمت نہیں کی ہو گی۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بچے جب چپل پہنتے ہیں تو پہلی کوشش میں چاہے وہ سیدھی بھی پہن لیں ، لیکن سیدھی چپل اُن کو پاؤں میں ڈھیلی محسوس ہوتی ہے، تو وہ فوراً اتار کے اُلٹی پہنتے ہیں۔ جیسے ہی اُلٹی چپل اُن کے پاؤ ں میں جاتی ہے تو وہ پاؤں میں تنگ محسوس ہوتی ہے۔ آپ اس چیز کو خود بھی ٹرائی کر سکتے ہیں۔

چپل والی بات تو خاص مزاح کے لئے تھی۔ لیکن اس آرٹیکل سے جو کچھ سیکھنے کو ملا ہے وہ بچوں کی اچھی تربیت ہے۔ کوشش کریں اپنے بچوں کی تربیت میں ان ساری باتوں کا خاص خیال رکھیں تا کہ آپ کے بچے مستقبل میں لوگوں میں شرماہٹ کا شکار نہ ہوں۔

293,472پرستارلائک

لاکھوں لوگوں کی طرح آپ بھی ہمارے پیج کو لائک کر کہ ہماری حوصلہ افزائی کریں۔