متعلقہ مضامین

مجموعہ مضامین

پاکستانی تاجر نے چینی بسنس مین سے بڑا فراڈ

کراچی: وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے کوآپریٹو...

تَخیُل کے لفظی معنی اور اسکا مطلب

اسم، مذکر، واحدخیال کرنا، خیال میں لانا، وہ خیال...

سربراہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی)  مولانا فضل الرحمان کا اہم بیان

سربراہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی)  مولانا فضل...

عمران خان کے بارے بڑی خوشخبری اچھی خبروں کا آغاز

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس ٹو میں...

24 نومبر کا احتجاج ملتوی؟

اسلام آباد: 24 نومبر کے احتجاج کو لے کر...

حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے ہمارا فیس بک پیج لائک کریں۔

293,475پرستارلائک

خفیہ بھارتی انٹیلجنس

یہ انڈیا کے لیے ایک شرمناک دستاویز تھی۔ انٹیلیجنس اہلکار حیران رہ گئے کہ انڈیا میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کے لیے لکھی گئی دستاویز سری لنکا کیسے پہنچی؟‘

اس اہم دستاویز کی صرف تین کاپیاں بنائی گئی تھیں۔ دو کاپیاں را کے اعلیٰ حکام کے پاس جبکہ ایک کاپی وزیراعظم کے دفتر کو بھجوائی گئی تھی۔

لیکن یہ خفیہ دستاویز کولمبو کیسے پہنچی؟

انڈین وزیراعظم کے دفتر سے معلومات افشا ہونے کا پہلا انکشاف اس وقت سامنے آیا جب انڈیا اور سری لنکا کے حکام دہلی میں ایک میٹنگ میں شریک تھے۔ میٹنگ شروع ہوتے ہی سری لنکن حکام نے انڈین حکام کو را کی ایک اعلیٰ خفیہ دستاویز دکھائی جس میں بتایا گیا کہ انڈین حکومت سری لنکا کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔

ونود شرما اور جی کے سنگھ نے ’دی ویک‘ میگزین کے 17 فروری سنہ 1985 کے شمارے میں لکھا کہ ’بعد میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ ایک فرانسیسی افسر نے وہ دستاویز حاصل کی تھیں اور انھیں ’نارائن نیٹ ورک‘ کے ذریعے سری لنکا پہنچایا تھا۔‘

نارائن نیٹ ورک کیا تھا؟ اس نیٹ ورک کا یورپی ملک فرانس اور انڈین وزیر اعظم کے دفترسے کیا تعلق تھا؟ یہ سب جاننے کے لیے آپ کو برسوں پچھے جانا پڑے گا؟

سٹینو گرافر سے جاسوس بننے تک کا سفر

سنہ 1985 میں جنوری کا مہینہ انڈین سیاست میں بڑا ہنگامہ خیز رہا تھا۔ اس ہلچل کے پس پشت ایک جاسوسی سکینڈل تھا جس کا سرا وزیراعظم کے دفتر سے ملتا تھا۔ انڈین میڈیا میں اسے ’مول ان دی پی ایم او سکینڈل‘ کا نام دیا گيا۔

اس سکینڈل کی وجہ سے اس وقت کے انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی کے پرنسپل سکریٹری پی سی الیگزینڈر نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

اس سکینڈل میں راجیو گاندھی کے پرنسپل سکریٹری کے پرائیوٹ سیکریٹری این ٹی کھیر، پی اے ملہوترا اور یہاں تک کہ ان کے چپراسی بھی شامل تھے۔

16 اور 17 جنوری کی رات کو انٹیلیجنس بیورو کے کاؤنٹر انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ نے سب سے پہلے این ٹی کھیر کو گرفتار کیا۔ صبح تک پی اے ملہوترا اور یہاں تک کہ پی ایم او کے ایک چپراسی کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

ان پر ایک انڈین تاجر کمار نارائن کے ذریعے خفیہ سرکاری دستاویزات غیر ملکی ایجنٹس کو بھیجنے کا الزام تھا۔

سنہ 1925 میں کوئمبٹور میں پیدا ہونے والے کمار نارائن سنہ 1949 میں دہلی آئے اور وزارت خارجہ میں بطور سٹینو گرافر اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ بعد میں انھوں نے استعفیٰ دے دیا اور انجینیئرنگ کا سامان بنانے والی کمپنی ایس ایم ایل مانک لال میں کام کرنا شروع کردیا۔

حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’اے سنگولر سپائی دی انٹولڈ سٹوری آف کمار نارائن‘ میں مصنف کلول بھٹاچارجی لکھتے ہیں کہ ’لائسنس پرمٹ راج میں حکومت کے اندر رہنے والے سٹینوگرافروں کو مختلف وزارتوں میں خفیہ معلومات تک خصوصی رسائی حاصل تھی۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’مسٹر نارائن جانتے تھے کہ سٹینو گرافر صرف ٹائپسٹ نہیں ہوتے۔ ان کے پاس موجود معلومات کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس معلومات کا سودا کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘

تفتیشی افسران نے بتایا تھا کہ گرفتاری تک نارائن فرانسیسی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کر رہے تھے۔ انھیں انڈیا میں فرانسیسی کارپوریٹ اور دفاعی مفادات کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

کلول بھٹاچارجی لکھتے ہیں کہ ’اس وقت انڈیا میں دفاعی بازار کھل رہا تھا اور فرانس کسی طرح اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’نارائن سات سال سے فرانسیسی جاسوس ایجنسی ڈی جی ایس ای کے لیے کام کر رہے تھے۔‘

کمار نارائن جن کی ہر اہم وزارت میں دوستی تھی

سنہ 1959 میں سرکاری نوکری چھوڑنے کے بعد کمار نے حکومت میں چھوٹے عہدوں پر کام کرنے والے لوگوں کا ایک خفیہ نیٹ ورک بنا لیا تھا۔

یہی نہیں، انھوں نے چھ یورپی ممالک فرانس، مشرقی جرمنی، مغربی جرمنی، چیکوسلواکیہ، سوویت یونین اور پولینڈ کے سفارت خانوں سے بھی رابطہ قائم کر رکھا تھا اور انھیں خفیہ اور حساس دستاویزات کی فراہمی شروع کر دی تھی۔

یہاں تک کہ 28 جنوری سنہ 1985 کے اخبار دی ٹائمز آف انڈیا میں یہ بھی بتایا گیا کہ کمار نارائن کو ’بیرون ملک خفیہ معلومات جمع کرنے کی تربیت بھی دی گئی تھی۔‘

1985 میں تقریباً دو ہزار لوگ انڈیا میں مختلف کارپوریٹ کمپنیوں کے لیے رابطہ افسر کے طور پر کام کر رہے تھے، جن میں کمار نارائن بھی شامل تھے۔

کلول بھٹاچارجی لکھتے ہیں کہ ’کمار کے وزیر اعظم اور صدر کے دفتر سمیت ہر اہم وزارت میں دوست تھے، انھوں نے اپنی گرفتاری سے پہلے کئی جائیدادیں خریدی تھیں اور وہ ایک امیر آدمی بن چکے تھے، ان کے اپنے ذرائع سے بہت قریبی رابطے تھے۔ وہ اپنے قریبی لوگوں کو مہنگے تحائف دیا کرتے تھے۔‘

معاملے کی جانچ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ وزیر اعظم کے دفتر میں تعینات پی گوپالن انھیں اپنے والد کی طرح مانتے تھے۔ پاسپورٹ آفس میں درج دستاویز میں انھوں نے لکھا تھا کہ اگر ان کی موت ہو جائے تو کمار نارائن کو اس کی اطلاع دی جائے۔

خفیہ دستاویز کی فوٹو کاپی

اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں ہائی الرٹ تھا اور اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہر شخص شک و شبے کی زد میں تھا۔ ایک وقت ایسا آیا جب وزیر اعظم اور صدر کے دفتر کے اعلیٰ حکام کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھی جانے لگی لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم کے دفتر سے کمار نارائن کا رابطہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ کمار نارائن کو پولیس نے محض اتفاق سے پکڑا تھا۔

سی بی آئی میں کام کرنے والے وید پرکاش شرما اکثر اپنے دوست سبھاش شرما کی فوٹو کاپی کی دکان پر جاتے تھے۔

دکان میں کافی روشنی تھی۔ اچانک ان کی نظر فوٹو کاپی کیے ہوئے ایک صفحے پر پڑی جس پر ’سینٹرل انٹیلیجنس بیورو‘ لکھا تھا۔

وید پرکاش کو اپنے تجربے سے پتا تھا کہ انٹیلیجنس بیورو اپنے کاغذات کو باہر لانے کی اجازت نہیں دیتا۔

کلول بھٹاچارجی لکھتے ہیں کہ ’وید پرکاش کمرے کے کونے میں ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ جس شخص نے فوٹو کاپی کروائی اور جس شخص نے فوٹو کاپی کی، سبھاش شرما کی پیٹھ اس کی طرف تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ انٹیلیجنس بیورو کے کاغذات پر وزیر اعظم کے دفتر اور ایوان صدر کے لیے نشان لگا دیا گیا تھا۔ یہ کاغذات آسام، کشمیر، ہیوی انڈسٹریز اور پاکستان سے متعلق تھے۔

اس کے بعد وید پرکاش ہر روز اپنے دوست کی دکان پر اس امید کے ساتھ جانے لگے کہ وہ ایک بار پھر اس فوٹو کاپی کروانے والے شخص سے مل سکیں گے۔

یہ سلسلہ کئی دن تک چلتا رہا۔ ان کاغذات میں انڈیا کے اندرونی اور بیرونی چیلنجز پر انٹیلیجنس بیورو کی بریفنگز شامل تھیں۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ خفیہ دستاویزات دہلی کے قلب میں واقع کناٹ پلیس میں فوٹو کاپی کیے جا رہے تھے۔

بھٹاچارجی لکھتے ہیں کہ ’جب وید پرکاش کو مکمل اعتماد ہو گیا تو انھوں نے اپنے سابق باس اور انٹیلیجنس بیورو کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جے این رائے سے رابطہ کیا اور انھیں سب کچھ بتایا۔‘

رائے نے کچھ افسران کو فوٹو کاپی شاپ پر تحقیقات کے لیے بھیجا لیکن کچھ بھی ٹھوس ہاتھ نہیں لگا۔

293,475پرستارلائک

لاکھوں لوگوں کی طرح آپ بھی ہمارے پیج کو لائک کر کہ ہماری حوصلہ افزائی کریں۔